Taashshuq Lakhnavi

تعشق لکھنوی

  • 1824 - 1892

تعشق لکھنوی کی غزل

    دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر

    دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر اس قافلہ کو پیاس نے مارا ہے چاہ پر گیسو کو ناز ہے دل روشن کی چاہ پر پروانہ یہ چراغ ہے مار سیاہ پر نیند اڑ گئی گراں ہے یہ شب رشک ماہ پر بجلی نہ کیوں فلک سے گرے میری آہ پر ہے یاد خفتگان زمیں کا جو خط سبز بھولے سے میں قدم نہیں رکھتا گیاہ پر لٹتا ہے خانۂ ...

    مزید پڑھیے

    انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا

    انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا ناز پرورد قفس ہوں میں نشیمن کیسا ہم وہ عریاں ہیں کہ واقف نہیں اے جوش جنوں نام کس شے کا گریبان ہے دامن کیسا اپنی آزردہ دلی بعد فنا کام آئی ڈھیر یہاں گرد کدورت کے ہیں مدفن کیسا کہہ دیا بس کہ تری آہ میں تاثیر نہیں یہ نہ دیکھا کہ یہ سینہ میں ہے روزن ...

    مزید پڑھیے

    جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں

    جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں بہ گئیں آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں ہیں جلو میں صفت ابر بہاری آنکھیں اٹھنے دیتی ہیں کہاں گرد سواری آنکھیں کیوں اسیران قفس کی طرف آنا چھوڑا پھیر لیں تو نے بھی اے باد بہاری آنکھیں سامنے آ گئی گلگشت میں نرگس شاید پلکوں سے چیں بہ جبیں ہیں جو ...

    مزید پڑھیے

    نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ

    نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ اس کی زنجیر طلائی سے لڑی میری آنکھ اپنے بیمار کو رکھتی ہے چھپا کر تہ خاک کہتے ہیں صاحب غیرت ہے بڑی میری آنکھ خاک میں مل کے عیاں ہوں گل نرگس بن کر دیکھ لے گر تری پھولوں کی چھڑی میری آنکھ اس طرح ذبح کیا تیغ نگہ سے مجھ کو خود وہ کہتے ہیں کہ ظالم ...

    مزید پڑھیے

    سوئے دیار خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا

    سوئے دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا موتیوں کی آبرو پر آج پانی پھر گیا سوئیاں سی کچھ دل وحشی میں پھر چبھنے لگیں ٹھیک ہونے کو لباس ارغوانی پھر گیا ہتھکڑی بھاری ہے میرے ہاتھ کی آج اے جنوں دست جاناں کا کہیں چھلا نشانی پھر گیا زور پیدا کر کہ پہنچے جیب تک دست جنوں اب تو موسم اے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں

    اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں کیفیت پر گل رخسار چلے آتے ہیں پڑ گئی کیا نگہ مست ترے ساقی کی لڑکھڑاتے ہوئے مے خوار چلے آتے ہیں یاد کیں نشہ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کس کی غش تجھے اے دل بیمار چلے آتے ہیں راہ میں صاحب اکسیر کھڑے ہیں مشتاق خاکساران در یار چلے آتے ہیں باغ میں پھول ...

    مزید پڑھیے

    کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں

    کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں مرے جذب دل کے بلائے ہوئے ہیں کجی پر جو افلاک آئے ہوئے ہیں ان آنکھوں کے شاید سکھائے ہوئے ہیں کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ یہ سب گھر تمہارے بسائے ہوئے ہیں کیا ہے جو کچھ ذکر مجھ دل جلے کا پسینہ میں بالکل نہائے ہوئے ہیں ذرا پھول سے پاؤں میلے نہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے

    یاد ایام کہ ہم رتبۂ رضواں ہم تھے باغبان چمن محفل جاناں ہم تھے قابل قتل نہ اے لشکر مژگاں ہم تھے دل کی اجڑی ہوئی بستی کے نگہباں ہم تھے دھجیاں جیب کی ہاتھوں میں ہیں آج اے وحشت جامہ زیبوں سے کبھی دست و گریباں ہم تھے جان لی گیسوؤں نے الفت رخ میں آخر کافروں نے ہمیں مارا کہ مسلماں ہم ...

    مزید پڑھیے

    تا سحر کی ہے فغاں جان کے غافل مجھ کو

    تا سحر کی ہے فغاں جان کے غافل مجھ کو رات بھر آج پکارا ہے مرا دل مجھ کو درد و غم سے جو تپاں تھا وہ ملا دل مجھ کو اس لیے دفن کیا ہے لب ساحل مجھ کو بار حسن آپ سے لیلیٰ کا اٹھایا نہ گیا نہ لیا قیس نے جس کو وہ ملا دل مجھ کو غیر پھر غیر ہیں آخر ہیں پھر اپنے اپنے یاد کرتا ہے ترے پاس مرا دل ...

    مزید پڑھیے

    محفل سے اٹھانے کے سزا وار ہمیں تھے

    محفل سے اٹھانے کے سزا وار ہمیں تھے سب پھول ترے باغ تھے اک خار ہمیں تھے ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے سودا تری زلفوں کا گیا ساتھ ہمارے مر کر بھی نہ چھوٹے وہ گرفتار ہمیں تھے کل رات کو دیکھا تھا جسے خواب میں تم نے رخسار پہ رکھے ہوئے رخسار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2