Taashshuq Lakhnavi

تعشق لکھنوی

  • 1824 - 1892

تعشق لکھنوی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر

    دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر اس قافلہ کو پیاس نے مارا ہے چاہ پر گیسو کو ناز ہے دل روشن کی چاہ پر پروانہ یہ چراغ ہے مار سیاہ پر نیند اڑ گئی گراں ہے یہ شب رشک ماہ پر بجلی نہ کیوں فلک سے گرے میری آہ پر ہے یاد خفتگان زمیں کا جو خط سبز بھولے سے میں قدم نہیں رکھتا گیاہ پر لٹتا ہے خانۂ ...

    مزید پڑھیے

    انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا

    انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا ناز پرورد قفس ہوں میں نشیمن کیسا ہم وہ عریاں ہیں کہ واقف نہیں اے جوش جنوں نام کس شے کا گریبان ہے دامن کیسا اپنی آزردہ دلی بعد فنا کام آئی ڈھیر یہاں گرد کدورت کے ہیں مدفن کیسا کہہ دیا بس کہ تری آہ میں تاثیر نہیں یہ نہ دیکھا کہ یہ سینہ میں ہے روزن ...

    مزید پڑھیے

    جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں

    جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں بہ گئیں آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں ہیں جلو میں صفت ابر بہاری آنکھیں اٹھنے دیتی ہیں کہاں گرد سواری آنکھیں کیوں اسیران قفس کی طرف آنا چھوڑا پھیر لیں تو نے بھی اے باد بہاری آنکھیں سامنے آ گئی گلگشت میں نرگس شاید پلکوں سے چیں بہ جبیں ہیں جو ...

    مزید پڑھیے

    نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ

    نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ اس کی زنجیر طلائی سے لڑی میری آنکھ اپنے بیمار کو رکھتی ہے چھپا کر تہ خاک کہتے ہیں صاحب غیرت ہے بڑی میری آنکھ خاک میں مل کے عیاں ہوں گل نرگس بن کر دیکھ لے گر تری پھولوں کی چھڑی میری آنکھ اس طرح ذبح کیا تیغ نگہ سے مجھ کو خود وہ کہتے ہیں کہ ظالم ...

    مزید پڑھیے

    سوئے دیار خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا

    سوئے دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا موتیوں کی آبرو پر آج پانی پھر گیا سوئیاں سی کچھ دل وحشی میں پھر چبھنے لگیں ٹھیک ہونے کو لباس ارغوانی پھر گیا ہتھکڑی بھاری ہے میرے ہاتھ کی آج اے جنوں دست جاناں کا کہیں چھلا نشانی پھر گیا زور پیدا کر کہ پہنچے جیب تک دست جنوں اب تو موسم اے ...

    مزید پڑھیے

تمام