Syed Ahmad Sahar

سید احمد سحر

سید احمد سحر کی غزل

    مرے خوابوں کی جو تعبیر ہوگی

    مرے خوابوں کی جو تعبیر ہوگی جبین وقت کی تحریر ہوگی میں سچ بولوں گا تو ہر بات میری زمانے کے جگر میں تیر ہوگی خبر کیا تھی متاع خود شناسی خود اپنے پاؤں کی زنجیر ہوگی پریشاں دل کو بہلانے کی آخر کہیں تو کوئی تو تدبیر ہوگی ہماری شاعری اپنی صدی کی سحرؔ منہ بولتی تصویر ہوگی

    مزید پڑھیے

    سخنوری کا یہ بے سود کاروبار ہے کیا

    سخنوری کا یہ بے سود کاروبار ہے کیا جنون شیشہ گری کا مآل کار ہے کیا وہ ہر چمن کو مٹانے کو بیقرار ہے کیا اسے گلوں کا تبسم بھی ناگوار ہے کیا نہ جانے کون سی بستی پہ مہرباں ہو جائے دراز دستیٔ دوراں کا اعتبار ہے کیا زمانہ ہو گیا جس کارواں کو چھوڑے ہوئے اب اس کا ذکر مسافت میں بار بار ...

    مزید پڑھیے

    دعا سلام سر رہ گزار کر لینا

    دعا سلام سر رہ گزار کر لینا مگر ہر ایک پہ مت اعتبار کر لینا ادھر نہ بھول کے جانا ہوا جدھر کی چلے یہ دل پہ جبر سہی اختیار کر لینا ہیں آستینوں میں خنجر ذرا سنبھل کے میاں روا روی میں نہ قول و قرار کر لینا مرا خمیر ہے اپنے وطن کی مٹی سے مری خطاؤں میں یہ بھی شمار کر لینا خراب ہو چکی ...

    مزید پڑھیے

    اب ایسی ناامیدی بھی نہیں ہے

    اب ایسی ناامیدی بھی نہیں ہے بہار آئے گی پھر ہم کو یقیں ہے تغیر کو لگا کرتی ہیں صدیاں کرشمہ دو گھڑی کا یہ نہیں ہے نہ ہو پائے نہ ہوں گے فاصلے کم ازل سے یوں ہی گردش میں زمیں ہے یہی ہے رشتۂ تار نفس اب جو اک نشتر سا دل میں جاگزیں ہے وہی رہ رہ کے ہم سے پوچھتے ہیں بیاں جس بات کا آساں ...

    مزید پڑھیے

    ملمع کی فراوانی بہت ہے

    ملمع کی فراوانی بہت ہے مگر ہر سمت ویرانی بہت ہے حقیقت ہے یہ اب اظہر من الشمس فروغ فتنہ سامانی بہت ہے فلک پر ہیں تصور کی کمندیں عمل پیرا تن آسانی بہت ہے نہیں ہے سایۂ دیوار سر پر غرور ظل سبحانی بہت ہے کہانی ہے یہ لیلائے خرد کی کہ یہ فتنوں کی دیوانی بہت ہے چراغ آبلہ پائی ہے ...

    مزید پڑھیے