Suroor Barabankvi

سرور بارہ بنکوی

سرور بارہ بنکوی کی غزل

    تو عروس شام خیال بھی تو جمال روئے سحر بھی ہے

    تو عروس شام خیال بھی تو جمال روئے سحر بھی ہے یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی راہ گزر بھی ہے نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ...

    مزید پڑھیے

    وہ بے رخی کہ تغافل کی انتہا کہیے

    وہ بے رخی کہ تغافل کی انتہا کہیے بہ ایں ہمہ اسے کس دل سے بے وفا کہیے غم حیات و غم کائنات سے ہٹ کر کسی کی قامت و گیسو کا ماجرا کہیے وہ منفعل ہو کہ ہو مشتعل بلا سے مگر کبھی تو حال دل زار برملا کہیے بتائیے کف محبوب دست قاتل کو لہو کے داغ کو گل کارئ حنا کہیے ادب کا ہے یہ تقاضا کہ اس ...

    مزید پڑھیے

    چمن والوں کو رقصاں و غزل خواں لے کے اٹھی ہے

    چمن والوں کو رقصاں و غزل خواں لے کے اٹھی ہے صبا اک اک سے تائید بہاراں لے کے اٹھی ہے رخ‌ گل رنگ پر اک شبنمستاں لے کے اٹھی ہے یہ کیا عالم تری چشم پشیماں لے کے اٹھی ہے یہ کس دامن کی حسرت چشم گریاں لے کے اٹھی ہے کہ دل سے جو بھی موج اٹھی ہے طوفاں لے کے اٹھی گرانباری سے شانہ خم ہوا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا

    دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے دم سے تھے تو نہیں تو ...

    مزید پڑھیے

    حال میں اپنے مگن ہو فکر آئندہ نہ ہو

    حال میں اپنے مگن ہو فکر آئندہ نہ ہو یہ اسی انسان سے ممکن ہے جو زندہ نہ ہو کم سے کم حرف تمنا کی سزا اتنی تو دے جرأت جرم سخن بھی مجھ کو آئندہ نہ ہو بے گناہی جرم تھا اپنا سو اس کوشش میں ہوں سرخ رو میں بھی رہوں قاتل بھی شرمندہ نہ ہو ظلمتوں کی مدح خوانی اور اس انداز سے یہ کسی پروردۂ ...

    مزید پڑھیے

    تو عروس شام خیال بھی تو جمال روئے سحر بھی ہے

    تو عروس شام خیال بھی تو جمال روئے سحر بھی ہے یہ ضرور ہے کہ بہ‌‌ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں وہی میرا جادۂ جستجو وہی ان کی راہ گزر بھی ہے ہمہ کشمکش مری زندگی کبھی آ کے دیکھ یہ بے بسی تری یاد وجہ سکوں سہی وہی راز دیدۂ تر بھی ہے ترے ...

    مزید پڑھیے

    اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں

    اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں ہوں جوار یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب میں سفیر حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں جشن فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں دم بخود ہوں اب سر مقتل یہ منظر دیکھ کر میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2