Sunil Kumar Jashn

سنیل کمار جشن

سنیل کمار جشن کی غزل

    خالی پڑے تھے جام نہیں دیکھ پائے ہم

    خالی پڑے تھے جام نہیں دیکھ پائے ہم اتنی اداس شام نہیں دیکھ پائے ہم ہم پر تھے منحصر کئی ناکام عشق بھی اپنا تھا جو بھی کام نہیں دیکھ پائے ہم کرنا تھا اہتمام قضا زیر زندگی اتنا بھی انتظام نہیں دیکھ پائے ہم وہ لب کہ جن کا ذکر ہمیشہ لبوں پہ تھا ان پر ہی اپنا نام نہیں دیکھ پائے ہم وہ ...

    مزید پڑھیے

    اب مجھے غیر کے آغوش میں کھوتے ہوئے دیکھ

    اب مجھے غیر کے آغوش میں کھوتے ہوئے دیکھ اپنے ہوتے ہوئے یہ ظلم بھی ہوتے ہوئے دیکھ لہلہاتی ہوئی غزلوں پہ تبسم نہ لٹا مجھ کو کاغذ پہ کبھی اشک بھی بوتے ہوئے دیکھ زہر ہوتی ہے یہ جاگی ہوئی آنکھوں کی تھکن خواب اتنے ہی ضروری ہیں تو سوتے ہوئے دیکھ کوئی کاندھا نہیں ملتا جنہیں ان سے ذرا ...

    مزید پڑھیے

    دور برہم بے معنی

    دور برہم بے معنی سارا عالم بے معنی اک میں اور اک تیرا غم باقی ماتم بے معنی اشک ندامت کے آگے آب زمزم بے معنی بزم بے دل میں شکوہ چشم پر نم بے معنی کچھ کاغذ کے پھولوں پر سارے موسم بے معنی نغمۂ بربت زندہ باد ذکر پرچم بے معنی

    مزید پڑھیے

    مرے آسان سے لہجے کی مشکل کون سمجھے گا

    مرے آسان سے لہجے کی مشکل کون سمجھے گا اسی پتھر میں ہے موجود اک دل کون سمجھے گا اداسی کے سوا رہنے کھنڈر میں کون آئے گا دل ویراں کی ویرانی کو محفل کون سمجھے گا نہیں ہوتا وہاں پر بھی جہاں ہوتا ہوں میں اکثر نہ ہونا ہے مرے ہونے میں شامل کون سمجھے گا مصیبت کی گھڑی میں کام اپنے ہی تو ...

    مزید پڑھیے

    عجب سی بد حواسی چھا رہی ہے

    عجب سی بد حواسی چھا رہی ہے مرے دل سے اداسی جا رہی ہے مرے اندر کوئی ناراض لڑکی مری ہر پیش کش ٹھکرا رہی ہے مجھے کیا زندگی سے لینا دینا مجھے کیوں زندگی الجھا رہی ہے مرے احساس بھی واپس کر ان میں مرے خط جو مجھے لوٹا رہی ہے ترے جانے سے اے جان تمنا تمنا کی تمنا جا رہی ہے

    مزید پڑھیے

    آبرو کی کسے ضرورت ہے

    آبرو کی کسے ضرورت ہے جان بچ جائے تو غنیمت ہے دیر تک ساتھ دے نہیں سکتا جھوٹ کی بس یہی حقیقت ہے بے ضرورت بھی کر لیا سجدہ یہ عبادت بڑی عبادت ہے میں محبت تجھے نہیں کرتا تو فقط روح کی ضرورت ہے دشت ویراں رہے اگر تو پھر دعوئ عاشقی پے لعنت ہے کوئی شکوہ گلہ نہیں باقی اب اسی بات کی ...

    مزید پڑھیے

    خود ہی پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے

    خود ہی پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے زمانے سے نبھایا جا رہا ہے ہماری آنکھوں سے بینائی لے کر ہمیں منظر دکھایا جا رہا ہے معانی خاک ہوتے جا رہے ہیں خیال اتنا پکایا جا رہا ہے سر منبر اکٹھا ہیں قلندر فقیری کو بھنایا جا رہا ہے وہاں سے بھی اٹھایا تھا ہمیں اب یہاں سے بھی اٹھایا جا رہا ...

    مزید پڑھیے

    اب تو دل و دماغ میں کوئی خیال بھی نہیں

    اب تو دل و دماغ میں کوئی خیال بھی نہیں اپنا جنون بھی نہیں اس کا جمال بھی نہیں اس سے بچھڑ کے زیست میں یے ہی گلہ رہا مجھے اس سے جدا بھی ہوں مگر جینا محال بھی نہیں عشق کی جنگ میں میاں یہ ہی اصول ہے بجا ہاتھ میں اس کے تیغ ہو آپ کے ڈھال بھی نہیں مجھ کو کہیں ملی نہیں کوئی بھی راہ پر ...

    مزید پڑھیے

    ہائے وہ یاد کہاں ہے کہ خدا خیر کرے

    ہائے وہ یاد کہاں ہے کہ خدا خیر کرے دل میں پھر امن و اماں ہے کہ خدا خیر کرے اک خدا ہے جو محض گفتگو میں ہے موجود اور اسی سے یہ گماں ہے کہ خدا خیر کرے مجھ میں اک دشت سا قائم ہے مگر چاروں طرف شہر کا شہر رواں ہے کہ خدا خیر کرے جو زمانہ سے چھپانی تھی مجھے ہر وہ بات شعر در شعر بیاں ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ہے رکھنی کتنی روانی نہیں سمجھ پائے

    ہے رکھنی کتنی روانی نہیں سمجھ پائے جوان لوگ جوانی نہیں سمجھ پائے وہ لوگ عشق کے صحرا میں تشنہ لب ہی رہے جو لوگ ریت کو پانی نہیں سمجھ پائے الٹ پلٹ کے بہت زیست کو پڑھا ہم نے کسی طرح بھی معانی نہیں سمجھ پائے جدید لہجے میں اس نے ہماری بات کہی سمجھ تھی جن کی پرانی نہیں سمجھ ...

    مزید پڑھیے