ہے رکھنی کتنی روانی نہیں سمجھ پائے
ہے رکھنی کتنی روانی نہیں سمجھ پائے
جوان لوگ جوانی نہیں سمجھ پائے
وہ لوگ عشق کے صحرا میں تشنہ لب ہی رہے
جو لوگ ریت کو پانی نہیں سمجھ پائے
الٹ پلٹ کے بہت زیست کو پڑھا ہم نے
کسی طرح بھی معانی نہیں سمجھ پائے
جدید لہجے میں اس نے ہماری بات کہی
سمجھ تھی جن کی پرانی نہیں سمجھ پائے
ہجوم شہر میں دن جیسے تیسے کاٹ دیا
کہاں ہے رات بتانی نہیں سمجھ پائے
تمام عمر سخن آشنا رہے لیکن
غزل تھی کس کو سنانی نہیں سمجھ پائے
یہ ہم نے ٹھان رکھی ہے کہ خوش نہیں رہنا
مگر یہ کس لیے ٹھانی نہیں سمجھ پائے
ہم اس کو خواب سمجھتے تھے صبح کا رنگیں
ہم اس کو رات کی رانی نہیں سمجھ پائے
یہ لوگ اپنی خرد کے شکار لوگ ہیں جشنؔ
تبھی تو دل کی زبانی نہیں سمجھ پائے