جینا تو اسی کو کہتے ہیں
شام سہانی سرمئی بادل وادی میں اتر کر سرگوشی کرتے ہیں تیز ہوائیں پھولوں پتوں کا منہ شوخی سے چوم رہی ہیں دھرتی کا ذرہ ذرہ دمک رہا ہے کس کو آنا ہے کون آئے گا تم نے اپنی سانسوں کے دھاگے جس سے باندھ رکھے ہیں وہ تو نہیں آئے گا وہ خود سر ہے اس کی انا اس کے قدموں کی زنجیر بنی ہے کتنے آنسو ...