صوفیہ انجم تاج کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    اس نے دیکھا تھا کل انداز سے جاتے جاتے

    اس نے دیکھا تھا کل انداز سے جاتے جاتے کہ مجھے چین نہ آیا کہیں آتے آتے ہم کو منظور نہیں ہے کہ بھرم ان کا کھلے ورنہ آئینہ دکھا دیتے ہم آتے جاتے وضع کہتی ہے وہ روٹھے ہیں تو جائیں روٹھیں دل کی خواہش ہے کہ ہم ان کو مناتے جاتے ہو گئے ہم ہی اندھیرے کے اب عادی ورنہ پردہ ان کے رخ روشن سے ...

    مزید پڑھیے

    انجمؔ پہ جو گزر گئی اس کا بھلا حساب کیا

    انجمؔ پہ جو گزر گئی اس کا بھلا حساب کیا پوچھے کوئی سوال کیا لائیں گے ہم جواب کیا خون دل و جگر سے ہے حسن خیال حسن فن اس کے بغیر شعر کیا مجموعہ کیا کتاب کیا تیرا ہی نام لے لیا وقت اشاعت کلام اس کے علاوہ اور ہم ڈھونڈتے انتساب کیا تیری ہی بے رخی سے تو ٹوٹا ہے دل ابھی ابھی اب التفات ...

    مزید پڑھیے

    ان طعنوں میں ان تشنیعوں میں پوشیدہ کوئی مفہوم تو ہو

    ان طعنوں میں ان تشنیعوں میں پوشیدہ کوئی مفہوم تو ہو کس بات کا ہم سے شکوہ ہے وہ بات ہمیں معلوم تو ہو میں خون جگر سے کاغذ پر کچھ نقش بناتی رہتی ہوں ہاں تجھ سے کوئی منسوب تو ہو ہاں تجھ سے کوئی موسوم تو ہو وہ لوگ جو بھولے بھالے تھے دل والے محبت والے تھے کس دیس میں ایسے لوگ ہیں اب وہ ...

    مزید پڑھیے

    ساز کے موجوں پہ نغموں کی سواری میں تھی

    ساز کے موجوں پہ نغموں کی سواری میں تھی بھیروی بن کے لب صبح پہ جاری میں تھی میں جو روتی تھی مرا چہرہ نکھر جاتا تھا آنسوؤں کے لیے پھولوں کی کیاری میں تھی گیت بن جاتی کبھی اور کبھی آنسو بنتی کبھی ہونٹوں سے کبھی آنکھوں سے جاری میں تھی جان دینا تو بڑی چیز ہے دل بھی نہ دیا تو تو کہتا ...

    مزید پڑھیے

    تری یاد جو میرے دل میں ہے بس اسی کی جلوہ گری رہی

    تری یاد جو میرے دل میں ہے بس اسی کی جلوہ گری رہی مرا غم بھی تازہ بہ تازہ ہے مری شاخ فن بھی ہری رہی میں نے اپنے پردۂ شعر میں تجھے اس ہنر سے چھپا لیا کہ غزل کہی تو ہر اک غزل تری خوشبوؤں سے بھری رہی یہی زندگی مری زندگی یہی زندگی مری موت ہے تری یاد بن گئی اک چھری جو مرے گلے پہ دھری ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    سنو

    اطراف میں اپنے جو پھیلی روشنی محسوس کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو یہ میرا خواب مت سمجھو کہو تو سچ کہوں میں واقعی لگتا ہے جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو کسی چوکھٹ پہ چڑھتی اک لچکتی شاخ پر پھولوں کے جھرمٹ میں نہاں پھولوں سے بڑھ کر ہو بڑھا کر ہاتھ کوئی جس کو چھو ...

    مزید پڑھیے

    زرد چمیلی

    یہ کس کے قدموں کی چاپ آئی۔۔۔ کون آیا یہ بام و در اب جو خستہ جاں ہیں یہ چونک اٹھے اور یاس و حسرت سے شکل ہم سب کی تک رہے ہیں دراڑ اپنے جگر کی لے کر کرب کی شدت کو سہہ کر نیلے سے پڑ گئے ہیں۔۔۔ کسی کے ہاتھوں کے لمس کو ترس رہے ہیں نمی کو آنکھوں میں ڈبڈبائے صحن کے رستے عبور کر کے اسی ستوں کے ...

    مزید پڑھیے

    بہار کا قرض

    دہکتی آگ میں پگھل کے قطرہ قطرہ گر رہی ہیں چوڑیاں یہ جشن آتشیں ہے کیا بہار کا کہ جس کی درد ناک چیخ سے لرز رہا ہے آسماں تمام رنگ و بو کے سلسلے یہ کھیت پھول ڈالیاں جھلس جھلس کے سب ہوئے برہنہ اور بے زباں افق پہ درد سے لکھے حروف کب سے ہیں لہو میں یوں ہی تر بہ تر یہ حادثات نو بہ نو کبھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    سنو

    اطراف میں اپنے جو پھیلی روشنی محسوس کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو یہ میرا خواب مت سمجھو کہو تو سچ کہوں میں واقعی لگتا ہے جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو کسی چوکھٹ پہ چڑھتی اک لچکتی شاخ پر پھولوں کے جھرمٹ میں نہاں پھولوں سے بڑھ کر ہو بڑھا کر ہاتھ کوئی جس کو چھو ...

    مزید پڑھیے

    دھنک

    پھر آج میرے تصور میں موتیا جاگا پھر آج سبز پری اتری چھمچھماتی ہوئی پھر آج ڈالیاں پھولوں کی رقص کرنے لگیں پھر آج خوشبوؤں سے بام و در مہکنے لگے پھر آج پھیل گیا روح و دل میں سیل جمال اثر نہ درد کا باقی رہا نہ غم کا خیال پھر اٹھا چڑیوں کا ایک جھنڈ چہچہاتا ہوا ہوا ہرے بھرے کھیتوں سے ...

    مزید پڑھیے

تمام