دھنک
پھر آج میرے تصور میں موتیا جاگا
پھر آج سبز پری اتری چھمچھماتی ہوئی
پھر آج ڈالیاں پھولوں کی رقص کرنے لگیں
پھر آج خوشبوؤں سے بام و در مہکنے لگے
پھر آج پھیل گیا روح و دل میں سیل جمال
اثر نہ درد کا باقی رہا نہ غم کا خیال
پھر اٹھا چڑیوں کا ایک جھنڈ چہچہاتا ہوا
ہوا ہرے بھرے کھیتوں سے اٹھی گاتی ہوئی
میں دیکھنے لگی سننے لگی نکھرنے لگی
چہکنے لگ گئی سجنے لگی سنورنے لگی
وہ میرا گاؤں کا گھر لال لال کھپرے کا
پھر اس کی اولتی سے ٹھنڈی دھار گرنے لگی
وہ ٹھنڈی دھار میری روح میں سمانے لگی
بھگونے لگ گئی مجھ کو
میں کھلکھلانے لگی