صوفیہ انجم تاج کی نظم

    سنو

    اطراف میں اپنے جو پھیلی روشنی محسوس کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو یہ میرا خواب مت سمجھو کہو تو سچ کہوں میں واقعی لگتا ہے جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو کسی چوکھٹ پہ چڑھتی اک لچکتی شاخ پر پھولوں کے جھرمٹ میں نہاں پھولوں سے بڑھ کر ہو بڑھا کر ہاتھ کوئی جس کو چھو ...

    مزید پڑھیے

    زرد چمیلی

    یہ کس کے قدموں کی چاپ آئی۔۔۔ کون آیا یہ بام و در اب جو خستہ جاں ہیں یہ چونک اٹھے اور یاس و حسرت سے شکل ہم سب کی تک رہے ہیں دراڑ اپنے جگر کی لے کر کرب کی شدت کو سہہ کر نیلے سے پڑ گئے ہیں۔۔۔ کسی کے ہاتھوں کے لمس کو ترس رہے ہیں نمی کو آنکھوں میں ڈبڈبائے صحن کے رستے عبور کر کے اسی ستوں کے ...

    مزید پڑھیے

    بہار کا قرض

    دہکتی آگ میں پگھل کے قطرہ قطرہ گر رہی ہیں چوڑیاں یہ جشن آتشیں ہے کیا بہار کا کہ جس کی درد ناک چیخ سے لرز رہا ہے آسماں تمام رنگ و بو کے سلسلے یہ کھیت پھول ڈالیاں جھلس جھلس کے سب ہوئے برہنہ اور بے زباں افق پہ درد سے لکھے حروف کب سے ہیں لہو میں یوں ہی تر بہ تر یہ حادثات نو بہ نو کبھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    سنو

    اطراف میں اپنے جو پھیلی روشنی محسوس کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو یہ میرا خواب مت سمجھو کہو تو سچ کہوں میں واقعی لگتا ہے جیسے تم کہیں پر ہو یہیں پر ہو کسی چوکھٹ پہ چڑھتی اک لچکتی شاخ پر پھولوں کے جھرمٹ میں نہاں پھولوں سے بڑھ کر ہو بڑھا کر ہاتھ کوئی جس کو چھو ...

    مزید پڑھیے

    دھنک

    پھر آج میرے تصور میں موتیا جاگا پھر آج سبز پری اتری چھمچھماتی ہوئی پھر آج ڈالیاں پھولوں کی رقص کرنے لگیں پھر آج خوشبوؤں سے بام و در مہکنے لگے پھر آج پھیل گیا روح و دل میں سیل جمال اثر نہ درد کا باقی رہا نہ غم کا خیال پھر اٹھا چڑیوں کا ایک جھنڈ چہچہاتا ہوا ہوا ہرے بھرے کھیتوں سے ...

    مزید پڑھیے

    اے ہم راز

    یہ اجلی سی زمیں نظروں کی حد سے اور آگے تک شجر پھیلے چلے جاتے ہیں اپنی حد سے آگے تک مرے کمرے کی سب چنگاریاں شاخوں پہ چمکی ہیں مرے بالوں پہ بکھری ہیں مرے آنچل سے سمٹی ہیں سحر کی پھوٹتی کرنیں تڑپ آئی دریچے سے لپٹ کر کھیلتی ہیں میرے گھر کے فرش مخمل سے تعیش کے ہر اک سامان پر اک نور بکھرا ...

    مزید پڑھیے