اس نے دیکھا تھا کل انداز سے جاتے جاتے

اس نے دیکھا تھا کل انداز سے جاتے جاتے
کہ مجھے چین نہ آیا کہیں آتے آتے


ہم کو منظور نہیں ہے کہ بھرم ان کا کھلے
ورنہ آئینہ دکھا دیتے ہم آتے جاتے


وضع کہتی ہے وہ روٹھے ہیں تو جائیں روٹھیں
دل کی خواہش ہے کہ ہم ان کو مناتے جاتے


ہو گئے ہم ہی اندھیرے کے اب عادی ورنہ
پردہ ان کے رخ روشن سے اٹھاتے جاتے


یہ جو فطرت ہے مری تھوڑی سی خودداری کی
ورنہ ہر حال میں ہم ان سے نبھاتے جاتے


کہہ دیا ان کو مری آنکھوں نے سب کچھ انجمؔ
ورنہ اک تازہ غزل ہم بھی سناتے جاتے