ہماری مٹی سے کیا بنے گا
ہماری مٹی سے کیا بنے گا بہت بنا تو خدا بنے گا یہ ہم جو بت ہو کے دیکھتے ہیں یہی تمہاری ادا بنے گا نہیں کوئی زاویہ ہمارا سو یہ بھی اک زاویہ بنے گا
ہماری مٹی سے کیا بنے گا بہت بنا تو خدا بنے گا یہ ہم جو بت ہو کے دیکھتے ہیں یہی تمہاری ادا بنے گا نہیں کوئی زاویہ ہمارا سو یہ بھی اک زاویہ بنے گا
آج ہے کچھ سبب آج کی شب نہ جا جان ہے زیر لب آج کی شب نہ جا کیا پتا پھر ترے وصل کی ساعتیں ہوں کہاں کیسے کب آج کی شب نہ جا چاند کیا پھول کیا شمع کیا رنگ کیا ہیں پریشان سب آج کی شب نہ جا وقت کو کیسے ترتیب دیتے ہیں لوگ آ سکھا دے یہ اب آج کی شب نہ جا وہ سحر بھی تجھی سے سحر تھی اسدؔ شب بھی ...
درد کے دائمی رشتوں سے لپٹ جاتے ہیں عکس روتے ہیں تو شیشوں سے لپٹ جاتے ہیں ہائے وہ لوگ جنہیں ہم نے بھلا رکھا ہے یاد آتے ہیں تو سانسوں سے لپٹ جاتے ہیں کس کے پیروں کے نشاں ہیں کہ مسافر بھی اب منزلیں بھول کے رستوں سے لپٹ جاتے ہیں جب وہ روتا ہے تو یک لخت مری پیاس کے ہونٹ اس کی آنکھوں ...
رگ جاں میں سما جاتی ہو جاناں تم اتنا یاد کیوں آتی ہو جاناں تمہارے سائے ہے پہلو میں اب تک کہ جا کر بھی کہاں جاتی ہو جاناں مری نیندیں اڑا رکھی ہیں تم نے یہ کیسے خواب دکھلاتی ہو جاناں کسی دن دیکھنا مر جاؤں گا میں مری قسمیں بہت کھاتی ہو جاناں وہ سنتا ہوں میں اپنی دھڑکنوں سے تم ...
اس نے پوچھا تھا پہلے حال مرا پھر کیا دیر تک ملال مرا میں وفا کو ہنر سمجھتا تھا مجھ پہ بھاری پڑا کمال مرا اس میں تبدیلیاں کرنی حسیں آئینے عکس تو نکال مرا میں ترا آخری اثاثہ ہوں اے غم یار رکھ خیال مرا
اور کس شے سے داغ دل دھوئیں کیا کریں گر نہ اس قدر روئیں دل تو پتھر بنا دیا تو نے آرزو کس زمین میں بوئیں ہم کسی بات سے نہیں ڈرتے ہم نے پایا ہی کیا ہے جو کھوئیں آج فرصت ملی ہیں مدت بعد آؤ! تنگئ وقت پر روئیں ہم یہی خواب دیکھتے ہیں اسدؔ ان کے شانے پہ رکھ کے سر سوئیں
غم سے فرصت نہیں کہ تجھ سے کہیں تجھ کو رغبت نہیں کہ تجھ سے کہیں ہجر پتھر گڑا ہے سینے میں پر وہ شدت نہیں کہ تجھ سے کہیں آرزو کسمسائے پھرتی ہے کوئی صورت نہیں کہ تجھ سے کہیں خامشی کی زباں سمجھ لینا اپنی عادت نہیں کہ تجھ سے کہیں درد حد سے سوا تو ہے لیکن ایسی حالت نہیں کہ تجھ سے ...
اس کا غم ہے کہ مجھے وہم ہوا ہے شاید کوئی پہلو میں مرے جاگ رہا ہے شاید جاگتے جاگتے پچھلی کئی راتیں گزری چاند ہونا مری قسمت میں لکھا ہے شاید دوڑ جاؤں ہر اک آہٹ پہ کواڑوں کی طرف اور پھر خود کو ہی سمجھاؤں ہوا ہے شاید اس کی باتوں سے وہ اب پھول نہیں جھڑتے ہیں اس کے ہونٹوں پہ ابھی میرا ...
مجھے ملال میں رکھنا خوشی تمہاری تھی مگر میں خوش ہوں کہ وابستگی تمہاری تھی بچھڑ کے تم سے خزاں ہو گئے تو یہ جانا ہمارے حسن میں سب دل کشی تمہاری تھی بہ نام شرط محبت یہ اشک بہنے دو ہمیں خبر ہے کہ جو بے بسی تمہاری تھی وہ صرف میں تو نہیں تھا جو ہجر میں رویا وہ کیفیت جو مری تھی وہی ...
میں یوں تو خواب کی تعبیر سوچتا بھی نہیں مگر وہ شخص مرے رت جگوں کا تھا بھی نہیں مرا نصیب وہ سمجھا نہ بات اشاروں کی مرا مزاج کہ میں صاف کہہ سکا بھی نہیں بڑی گراں ہے مری جاں یہ کیفیت مت پوچھ کہ ان لبوں پہ گلہ بھی نہیں دعا بھی نہیں یہ زندگی کے تعاقب میں روز کا پھرنا اگرچہ اس طرح جینے ...