Sohail Akhtar

سہیل اختر

سہیل اختر کی غزل

    دست بردار ہوا میں بھی طلب گاری سے

    دست بردار ہوا میں بھی طلب گاری سے اب کہیں جا کے افاقہ ہوا بیماری سے خاک میں خود کو ملایا تو جڑیں پائی ہیں کیسے روکے گا کوئی مجھ کو نموداری سے ٹوٹ ہی جاتے ہیں اخلاص کے پتلے آخر سو مجھے بچ کے نکلنا ہے اداکاری سے اب بھی کچھ چیزیں ہیں بازار میں جو آئی نہیں اب بھی منکر ہے کوئی میری ...

    مزید پڑھیے

    ان دنوں تیز بہت تیز ہے دھارا میرا

    ان دنوں تیز بہت تیز ہے دھارا میرا دونوں جانب سے ہی کٹتا ہے کنارا میرا سرد ہو جاتی ہے ہر آگ بالآخر اک دن دیکھیے زندہ ہے کب تک یہ شرارہ میرا نفع در نفع سے بھی کیا کبھی زائل ہوگا روح پر بوجھ بنا ہے جو خسارہ میرا ہے یہ عالم کہ نہیں خود کو میسر میں بھی کیسے اب ہوتا ہے مت پوچھ گزارا ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کی آزمائش ہو گیا ہوں

    خزاں کی آزمائش ہو گیا ہوں میں اک جنگل کی چاہت میں ہرا ہوں مری کشتی کبھی غرقاب کی تھی ابھی تک میں سمندر سے خفا ہوں پرندے ہو گئے ناراض مجھ سے کہا جب میں بھی اڑنا چاہتا ہوں کوئی وحشت سے بھی ملوائے مجھ کو میں صحرا میں ابھی بالکل نیا ہوں ابھی اک روشنی آئی تھی ملنے سبب کیا ہے کہ میں ...

    مزید پڑھیے

    جنت سے نکالا نہ جہنم سے نکالا

    جنت سے نکالا نہ جہنم سے نکالا اس نے تو مجھے خوشۂ گندم سے نکالا رکھا ہے مجھے آج تلک موج میں اس نے جس لہر کو گرداب و تلاطم سے نکالا یہ بھول ہی بیٹھا تھا زباں رکھتا ہوں میں بھی سو خود کو ترے سحر تکلم سے نکالا اس عادت تاخیر کو اک عمر ہے درکار مشکل سے طبیعت کو تقدم سے نکالا تدبیر کو ...

    مزید پڑھیے

    صرف تھوڑی سی ہے انا مجھ میں

    صرف تھوڑی سی ہے انا مجھ میں ورنہ باقی ہے بس خلا مجھ میں اندر اندر مجھے یہ کھاتی ہے ایک بھوکی سی ہے بلا مجھ میں ڈھہ رہا ہوں میں اک کھنڈر کی طرح اک بھٹکتی ہے آتما مجھ میں اب ہر اک بات پر میں راضی ہوں جانے یہ کون مر گیا مجھ میں میری آوارگی سے گھبرا کر مڑ گیا میرا راستہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    ضروری کب ہے کہ ہر کام اختیاری کریں

    ضروری کب ہے کہ ہر کام اختیاری کریں اب اپنے آپ کو اتنا نہ خود پہ طاری کریں یہ انجماد بھی ٹوٹے گا دیکھنا اک دن ہم اعتماد سے پہلے تو خود کو جاری کریں کوئی بھی کھیل ہو حیران اب نہیں کرتا نہ جانے کون سے کرتب نئے مداری کریں بلاوا عرش سے آتا ہے گر تو آتا رہے جو خاک زادے ہی ٹھہرے تو ...

    مزید پڑھیے

    یہ راز اس نے چھپایا ہے خوش بیانی سے

    یہ راز اس نے چھپایا ہے خوش بیانی سے کہ میرا ذکر بھی غائب ہے اب کہانی سے میں خواہشوں کے نمک کا ہوں ڈھیر مت پوچھو جو میرا خوف ہے جذبوں کے بہتے پانی سے غرور توڑنا میں چاہتا ہوں دریا کا بدل دے تو مری لکنت کو اب روانی سے سخن میں کچھ نہیں اعجاز کی تمنا ہے سو عرض کرنے لگے ہم بھی بے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں

    ہمارے جیسے ہی لوگوں سے شہر بھر گئے ہیں وہ لوگ جن کی ضرورت تھی سارے مر گئے ہیں گھروں سے وہ بھی صدا دے تو کون نکلے گا ہے دن کا وقت ابھی لوگ کام پر گئے ہیں کہ آ گئے ہیں تری شور و شر کی محفل میں ہم اپنی اپنی خموشی سے کتنا ڈر گئے ہیں انہیں سے سیکھ لیں تہذیب راہ چلنے کی جو راہ دینے کی ...

    مزید پڑھیے

    جب کوئی عالم شہود نہ تھا

    جب کوئی عالم شہود نہ تھا میں بھی اک خواب تھا وجود نہ تھا اپنی تخلیق سے ہوا محدود ورنہ میں جانتا حدود نہ تھا مجھ میں بھی لو تھی آگ تھی پہلے میرا سرمایہ صرف دود نہ تھا جانے اس نے مجھے خریدا کیوں میں زیاں ہی زیاں تھا سود نہ تھا طرز اظہار نے کیا مخصوص خاص اشعار کا ورود نہ تھا اک ...

    مزید پڑھیے

    اس زمین و آسماں پر خاک ڈال

    اس زمین و آسماں پر خاک ڈال کچھ نہیں تیرا یہاں پر خاک ڈال نقش ہونے کی تری صورت ہے اور اس وجود بے نشاں پر خاک ڈال ختم سب کچھ ہار سے ہوتا نہیں اٹھ اور احساس زیاں پر خاک ڈال درد جب سمجھے ترا وہ بے زباں آرزوئے ہم زباں پر خاک ڈال اس مکانی قید سے باہر نکل اس زمان و لا زماں پر خاک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2