Sirajuddin Zafar

سراج الدین ظفر

سراج الدین ظفر کی غزل

    دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے

    دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے رات کو پھر پائے گل رویاں پہ سر رکھ دیجئے دیکھیے پھر کیا دمکتے ہیں گل اندامان شہر اک ذرا ان میں محبت کا شرر رکھ دیجئے آہوان شب گریزاں ہوں تو ان کی راہ میں دام دل رکھ دیجئے دام نظر رکھ دیجئے بت پرستی کیجیے اس شدت احساس سے سنگ میں بھی جزو ...

    مزید پڑھیے

    بغیر ساغر و یار جواں نہیں گزرے

    بغیر ساغر و یار جواں نہیں گزرے ہماری عمر کے دن رائیگاں نہیں گزرے ہجوم گل میں رہے ہم ہزار دست دراز صبا نفس تھے کسی پر گراں نہیں گزرے نمود ان کی بھی دور سبو میں تھی کل رات ابھی جو دور تہ آسماں نہیں گزرے نقوش پا سے ہمارے اگے ہیں لالہ و گل رہ بہار سے ہم بے نشاں نہیں گزرے غلط ہے ہم ...

    مزید پڑھیے

    سب ماسوائے عشق فریب سراب ہے

    سب ماسوائے عشق فریب سراب ہے میں بھی ہوں خواب میری جوانی بھی خواب ہے ہے بوئے گل کہیں کہیں رنگ شراب ہے ہر چیز میں شریک کسی کا شباب ہے میری نظر سوال ہے اور برملا سوال ان کی نظر جواب ہے اور لا جواب ہے دل کارزار عشق و وفا میں ہے پیش پیش طوفاں کے سامنے ہے اگرچہ حباب ہے شمع جمال دوست ...

    مزید پڑھیے

    رہین بیم ہستی ہے دل دیوانہ برسوں سے

    رہین بیم ہستی ہے دل دیوانہ برسوں سے ہوا کی زد میں ہے اپنا چراغ خانہ برسوں سے خوشا اے جوش حسرت اشک بھر آئے ہیں آنکھوں میں ترستا تھا چراغاں کو مرا کاشانہ برسوں سے یہ حسن و عشق افکار ازل کی یادگاریں ہیں زبان دہر دہراتی ہے یہ افسانہ برسوں سے جنون عشق کو معراج پر پہنچا دیا ہم نے ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3