Sirajuddin Siraj

سراج الدین سراج

سراج الدین سراج کی غزل

    مسکرانے پہ انہیں کس لئے رسوا کرتے

    مسکرانے پہ انہیں کس لئے رسوا کرتے بات ہی کیا تھی کہ جس بات کا چرچا کرتے لکھنا پڑتی جو کبھی ان کے سراپا پہ غزل پہروں تنہائی میں بیٹھے ہوئے سوچا کرتے وہ تو یوں کہیے کہ دیکھا نہیں ان کو ورنہ دیکھ لیتے جو انہیں لوگ تو دیکھا کرتے اب ہمیں اپنی تباہی میں کوئی شک نہ رہا ہم نے خود دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    میں کیا بتاؤں کہ مقصود جستجو کیا ہے

    میں کیا بتاؤں کہ مقصود جستجو کیا ہے مری نگاہ کو صدیوں سے آرزو کیا ہے یہ راز مجھ کو بتایا تری نگاہوں نے جو خامشی ہے تکلم تو گفتگو کیا ہے جو کوئی پوچھے تو میں خود بتا نہیں سکتا مرے شعور میں مفہوم رنگ و بو کیا ہے کسے خبر ہے کہ کب اس نے بولنا سیکھا کوئی بتائے کہ تاریخ گفتگو کیا ...

    مزید پڑھیے

    اسے کہتے ہیں اپنی ذات میں مستور ہو جانا

    اسے کہتے ہیں اپنی ذات میں مستور ہو جانا ترے نزدیک آنا اور خود سے دور ہو جانا علاج تشنگی یہ ہے کہ آنسو پی لئے جائیں کسی مے کش کا جیسے بے پیے مخمور ہو جانا ہمارا اختیار بے طلب جبر مشیت ہے وفا کے سلسلے میں فطرتاً مجبور ہو جانا کرشمہ ہے یہ حق گوئی کا ورنہ کیسے ممکن تھا مرے دل کا ...

    مزید پڑھیے

    ترے فراق کے لمحے گزر ہی جائیں گے

    ترے فراق کے لمحے گزر ہی جائیں گے کبھی تو زخم مرے دل کے بھر ہی جائیں گے ابھی تو جوش میں ہے ذوق جادہ پیمائی کبھی جو ہوش میں آئے تو گھر ہی جائیں گے تری جدائی کے لمحے عذاب ہیں لیکن ترے بغیر بھی یہ دن گزر ہی جائیں گے خیال تھا کہ نہ آتے تمہاری محفل میں اب آ گئے ہیں تو کچھ بات کر ہی ...

    مزید پڑھیے