اسے کہتے ہیں اپنی ذات میں مستور ہو جانا

اسے کہتے ہیں اپنی ذات میں مستور ہو جانا
ترے نزدیک آنا اور خود سے دور ہو جانا


علاج تشنگی یہ ہے کہ آنسو پی لئے جائیں
کسی مے کش کا جیسے بے پیے مخمور ہو جانا


ہمارا اختیار بے طلب جبر مشیت ہے
وفا کے سلسلے میں فطرتاً مجبور ہو جانا


کرشمہ ہے یہ حق گوئی کا ورنہ کیسے ممکن تھا
مرے دل کا امین عظمت منصور ہو جانا


کسی شے کی کبھی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی
کہ جیسے نار کا ممکن نہیں ہے نور ہو جانا


اگر دنیا میں غم ہی دائمی شے ہے تو پھر یارو
عبث ہے چند لمحوں کے لئے مسرور ہو جانا


مزاج عاشقی کا یہ عجب انداز دیکھا ہے
تمہارا مسکرانا درد کا کافور ہو جانا


خلوص باہمی درکار ہے ہستی کی راہوں میں
کوئی مشکل نہیں ہے زنگ دل سے دور ہو جانا


یہ احساس ندامت ہے سراجؔ اپنے گناہوں پر
کبھی رنجور ہو جانا کبھی مسرور ہو جانا