ترے فراق کے لمحے گزر ہی جائیں گے
ترے فراق کے لمحے گزر ہی جائیں گے
کبھی تو زخم مرے دل کے بھر ہی جائیں گے
ابھی تو جوش میں ہے ذوق جادہ پیمائی
کبھی جو ہوش میں آئے تو گھر ہی جائیں گے
تری جدائی کے لمحے عذاب ہیں لیکن
ترے بغیر بھی یہ دن گزر ہی جائیں گے
خیال تھا کہ نہ آتے تمہاری محفل میں
اب آ گئے ہیں تو کچھ بات کر ہی جائیں گے
ازل سے دور عروج و زوال قائم ہے
چڑھے ہیں آج جو دریا اتر ہی جائیں گے
خیال خاطر احباب جو نہیں رکھتے
وہ ایک روز دلوں سے اتر ہی جائیں گے
کچھ اور اے دل مضطر بڑھا دے ضبط کی لو
عروس شام کے گیسو سنور ہی جائیں گے
عجب مزاج کے حامل ہیں عشق کے مارے
جدھر ہوئے ہیں وہ رسوا ادھر ہی جائیں گے
سراجؔ شوق سا کیا کوئی ترجماں ہوگا
خموش رہ کے بھی ہم بات کر ہی جائیں گے