Siddiq Fatahpuri

صدیق فتح پوری

صدیق فتح پوری کی غزل

    تند خو ہوا بھی کب کام کر سکی تنہا

    تند خو ہوا بھی کب کام کر سکی تنہا آندھیوں میں روشن ہے شمع زندگی تنہا ساتھ ساتھ چلتے ہیں غم رہ مسرت میں راس کس کو آیا ہے لمحۂ خوشی تنہا اور تیز ہوتا ہے وحشتوں کے عالم میں کیا ہوا بجھائے گی رقص شعلگی تنہا صبح کے مسافر کو کون روک سکتا ہے راستہ بناتا ہے سیل روشنی تنہا رہ گئے سبھی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہو تو برا بھلا دیکھے

    آنکھ ہو تو برا بھلا دیکھے بے بصر آئنے میں کیا دیکھے زندگی کی حسین راہوں میں کربلا ہم نے جا بجا دیکھے اندھا ساون کا ہو تو چاروں طرف کوئی رت ہو ہرا بھرا دیکھے اس کو آئے گا معجزہ ہی نظر عقل سے جو بھی ماورا دیکھے خوشبوؤں کی بہار سے عاری پھول کاغذ کے خوش نما دیکھے بے عمل کو ہمیشہ ...

    مزید پڑھیے

    طلسم ذات سے باہر نکلیے

    طلسم ذات سے باہر نکلیے نظر کے گھات سے باہر نکلیے اجالے جانے کب سے منتظر ہیں اندھیری رات سے باہر نکلیے تصور سے فقط ہوتا نہیں کچھ ہوائی بات سے باہر نکلیے ہیں انساں کے لئے یہ سم قاتل بری عادات سے باہر نکلیے ندی نالے سبھی امڈے ہوئے ہیں بھری برسات سے باہر نکلیے کہیں گم ہو نہ ...

    مزید پڑھیے