طلسم ذات سے باہر نکلیے

طلسم ذات سے باہر نکلیے
نظر کے گھات سے باہر نکلیے


اجالے جانے کب سے منتظر ہیں
اندھیری رات سے باہر نکلیے


تصور سے فقط ہوتا نہیں کچھ
ہوائی بات سے باہر نکلیے


ہیں انساں کے لئے یہ سم قاتل
بری عادات سے باہر نکلیے


ندی نالے سبھی امڈے ہوئے ہیں
بھری برسات سے باہر نکلیے


کہیں گم ہو نہ جائیں آپ اس میں
ہجوم ذات سے باہر نکلیے


عذاب جاں ہے ناکردہ گناہی
ان الزامات سے باہر نکلیے


اصول زندگی بدلا ہوا ہے
حسیں لمحات سے باہر نکلیے


بدل جائیں گے روز و شب بھی صدیقؔ
حصار ذات سے باہر نکلیے