تند خو ہوا بھی کب کام کر سکی تنہا

تند خو ہوا بھی کب کام کر سکی تنہا
آندھیوں میں روشن ہے شمع زندگی تنہا


ساتھ ساتھ چلتے ہیں غم رہ مسرت میں
راس کس کو آیا ہے لمحۂ خوشی تنہا


اور تیز ہوتا ہے وحشتوں کے عالم میں
کیا ہوا بجھائے گی رقص شعلگی تنہا


صبح کے مسافر کو کون روک سکتا ہے
راستہ بناتا ہے سیل روشنی تنہا


رہ گئے سبھی پیچھے زعم خود نمائی میں
کام آ گیا اپنا جذب بے خودی تنہا


جس جگہ فرشتوں کے بھی قدم نہیں پہنچے
لے گیا مجھے میرا ذوق آگہی تنہا


بلبلوں کے نغمے تھے چار سو جہاں صدیقؔ
خیمہ زن گلستاں میں اب ہے خامشی تنہا