ٹیوشن
چنتی ہوں میں لمحہ لمحہ ساحل سے تابندہ موتی اور باغوں سے پھول موتی اور پھولوں کی جب پازیب بنا کر پہنوں گی چڑھتا سورج وجد میں آ کے میری ایڑی چومے گا اور سمندر شام کنارے پیاس کا دامن کھولے گا
چنتی ہوں میں لمحہ لمحہ ساحل سے تابندہ موتی اور باغوں سے پھول موتی اور پھولوں کی جب پازیب بنا کر پہنوں گی چڑھتا سورج وجد میں آ کے میری ایڑی چومے گا اور سمندر شام کنارے پیاس کا دامن کھولے گا
سفینہ ساز تھا وہ لکڑیاں میں کاٹ لاتی تھی سو بس اک دن کہا اس نے لکڑہاری انوکھے اک سفینے کی ہی اب تخلیق باقی ہے مجھے درکار ہے جس کے لئے نادیدہ جنگل کی کھنکتی سرمئی لکڑی اگر تو ڈھونڈ لائے تو بنا سکتا ہوں میں نادر سفینہ اک میں اس کی بات سنتے ہی یکایک چونک اٹھی پھر نظر بھر کر اسے دیکھا ...
مصرعے دم پہ رکھ دیتی ہوں چاول قاب میں بھیگ چکے ہیں روٹی بیلن کے نیچے ہے پیاز کا تڑکا دال پہ ڈال کے چاول پکنے رکھے ہیں کیٹل میں ہے چائے چڑھائی جب تک چائے میں بھانپ بنے میں مصرعے دم پہ رکھ دیتی ہوں اور اسی اثنا میں برتن دسترخوان پہ چن دیتی ہوں دسترخوان پہ کپ پلیٹوں اور چمچوں کے شور ...
الگنی جو دھوپ میں لٹک رہی تھی ٹوٹ کے اسی کو پھر سے باندھ کے سبز رنگ کا ریشمی لباس اس پہ ٹانگ کے وہ خوش ہوئی ہے اس قدر کہ جیسے اس نے پا لیے ہوں گر سبھی حیات کے مگر اسے نہیں پتہ یہ الگنی جو ٹوٹ کے لٹک رہی تھی دھوپ میں یہ اب بہت اداس ہے