Shuja Khaavar

شجاع خاور

-سابق آئی پی ایس آفیسر جنھوں نے اپنی نوکری بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی

Former IPS officer, who had quit service in the midst of his career.

شجاع خاور کی غزل

    اب تیرے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے ہیں

    اب تیرے لیے ہیں نہ زمانے کے لیے ہیں ہم گوشۂ تنہائی سجانے کے لیے ہیں مطلب مری تحریر کا الفاظ سے مت پوچھ الفاظ تو مفہوم چھپانے کے لیے ہیں ہاں تیرے تغافل سے پریشان ہیں ہم بھی یہ طنز کے تیور تو دکھانے کے لیے ہیں تم سامنے ہو پھر بھی چلے آئے زباں پر وہ گیت جو تنہائی میں گانے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    تکلف چھوڑ کر میرے برابر بیٹھ جائے گا

    تکلف چھوڑ کر میرے برابر بیٹھ جائے گا تصور میں ابھی وہ پاس آ کر بیٹھ جائے گا در و دیوار پر اتنا پڑا ہے سارے دن پانی اگر کل دھوپ بھی نکلے گی تو گھر بیٹھ جائے گا اڑے گا خود تو لائے گا خبر سات آسمانوں کی اڑایا تو پرندہ چھت کے اوپر بیٹھ جائے گا نہ منزل کو پتا ہوگا نہ رستوں کو خبر ...

    مزید پڑھیے

    پار اترنے کے لیے تو خیر بالکل چاہئے

    پار اترنے کے لیے تو خیر بالکل چاہئے بیچ دریا ڈوبنا بھی ہو تو اک پل چاہئے فکر تو اپنی بہت ہے بس تغزل چاہئے نالۂ بلبل کو گویا خندۂ گل چاہئے شخصیت میں اپنی وہ پہلی سی گہرائی نہیں پھر تری جانب سے تھوڑا سا تغافل چاہئے جن کو قدرت ہے تخیل پر انہیں دکھتا نہیں جن کی آنکھیں ٹھیک ہیں ان ...

    مزید پڑھیے

    پہلے ہوا جو کرتے تھے ہم وہ نہیں رہے

    پہلے ہوا جو کرتے تھے ہم وہ نہیں رہے دیکھو شب فراق ہے اور رو نہیں رہے ایسی بھی رو رہے ہیں انہیں جو نہیں رہے پہلے سے معجزے تو کہیں ہو نہیں رہے یارو دکھاؤ پھر کوئی ایسا ہنر کہ بس غیروں کی کوئی فکر ہی ہم کو نہیں رہے اشعار سے عیاں ہیں تو اشعار مت پڑھو ہم دل کے داغ تم کو دکھا تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سردی بھی ختم ہو گئی برسات بھی گئی

    سردی بھی ختم ہو گئی برسات بھی گئی اور اس کے ساتھ گرمئ جذبات بھی گئی اس نے مری کتاب کا دیباچہ پڑھ لیا اب تو کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی میں آسماں پہ جا کے بھی تارے نہ لا سکا تم بھی گئے اداس مری بات بھی گئی ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا عرفان ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی ملنے ...

    مزید پڑھیے

    یہاں وہاں کی بلندی میں شان تھوڑی ہے

    یہاں وہاں کی بلندی میں شان تھوڑی ہے پہاڑ کچھ بھی سہی آسمان تھوڑی ہے مرے وجود سے کم تیری جان تھوڑی ہے فساد تیرے مرے درمیان تھوڑی ہے ملے بنا کوئی رت ہم سے جا نہیں سکتی ہمارے سر پہ کوئی سائبان تھوڑی ہے یہ واقعہ ہے کہ دشمن سے مل گئے ہیں دوست مرا بیان برائے بیان تھوڑی ہے کرم ہے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    دوسری باتوں میں ہم کو ہو گیا گھاٹا بہت

    دوسری باتوں میں ہم کو ہو گیا گھاٹا بہت ورنہ فکر شعر کو دو وقت کا آٹا بہت کائنات اور ذات میں کچھ چل رہی ہے آج کل جب سے اندر شور ہے باہر ہے سناٹا بہت آرزو کا شور برپا ہجر کی راتوں میں تھا وصل کی شب تو ہوا جاتا ہے سناٹا بہت ہم سے تو اک شعر سن کر فلسفی چپ ہو گیا لیکن اس نے بے زباں نقاد ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ تھوڑی رکھی ہے

    چہرے پہ تھوڑی رکھی ہے دل میں بیتابی رکھی ہے اک دو دن سے جینے والو ہم نے کافی جی رکھی ہے دل کے شجر نے کس محنت سے اک اک شاخ ہری رکھی ہے وصل ہوا پر دل میں تمنا جیسی تھی ویسی رکھی ہے غیر کی کیا رکھے گا یہ درباں ظالم نے کس کی رکھی ہے ہوس میں کچھ بھی کر سکتے ہو عشق میں پابندی رکھی ...

    مزید پڑھیے

    لوگوں نے ہم کو شہر کا قاضی بنا دیا

    لوگوں نے ہم کو شہر کا قاضی بنا دیا اس حادثے نے ہم کو نمازی بنا دیا تم کو کہا جو چاند تو تم دور ہو گئے تشبیہ کو بھی تم نے مجازی بنا دیا ایک اور دن کی شام کسی طرح ہو گئی کچھ دے دلا کے حال کو ماضی بنا دیا بغض معاویہ میں سبھی ایک ہو گئے اس اتحاد نے مجھے نازی بنا دیا خالی علامتوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ادھر تو دار پر رکھا ہوا ہے

    ادھر تو دار پر رکھا ہوا ہے ادھر پیروں میں سر رکھا ہوا ہے کم از کم اس سراب آرزو نے مری آنکھوں کو تر رکھا ہوا ہے سمجھتے کیا ہو ہم کو شہر والو بیاباں میں بھی گھر رکھا ہوا ہے ہم اچھا مال تو بالکل نہیں ہیں ہمیں کیوں باندھ کر رکھا ہوا ہے مرے حالات کو بس یوں سمجھ لو پرندے پر شجر رکھا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4