شکوہ ہو ہمیں کیا تری بیداد گری کا
شکوہ ہو ہمیں کیا تری بیداد گری کا دل لطف اٹھاتا ہے تری کم نظری کا غنچوں کو بھری نیند سے چونکا تو دیا ہے احسان گلستاں پہ نسیم سحری کا اب دل کے دھڑکنے کا بھی احساس نہیں ہے کچھ اور ہی عالم ہے مری بے خبری کا مرہم نہ سہی زخم پہ نشتر تو رکھا ہے احسان نہ بھولیں گے تری چارہ گری کا کیا ...