مظلوم کسی دست حنائی کے نکلتے
مظلوم کسی دست حنائی کے نکلتے
جو لوگ ارادے سے گدائی کے نکلتے
غزلیں مری ان پر نہ گراں اتنی گزرتیں
پہلو جو کہیں مدح سرائی کے نکلتے
صیاد کو کیا جانئے کیا وہم گزرتا
احکام اگر میری رہائی کے نکلتے
بربادئ دل کا جو مری چھڑتا فسانہ
افسانے ترے دست حنائی کے نکلتے
محرومیٔ تقدیر کا احساس نہ ہوتا
موقعے جو کسی در پہ رسائی کے نکلتے
میں مہر بہ لب تھا یہی اچھا ہوا ورنہ
الزام مرے سر ہی برائی کے نکلتے
اے شوقؔ مرا رنگ غزل اور ہی ہوتا
صدمے جو مرے دل سے جدائی کے نکلتے