شکوہ ہو ہمیں کیا تری بیداد گری کا

شکوہ ہو ہمیں کیا تری بیداد گری کا
دل لطف اٹھاتا ہے تری کم نظری کا


غنچوں کو بھری نیند سے چونکا تو دیا ہے
احسان گلستاں پہ نسیم سحری کا


اب دل کے دھڑکنے کا بھی احساس نہیں ہے
کچھ اور ہی عالم ہے مری بے خبری کا


مرہم نہ سہی زخم پہ نشتر تو رکھا ہے
احسان نہ بھولیں گے تری چارہ گری کا


کیا جانئے کیا سوچ کے لب سی لیے ہم نے
سنتے تھے بہت شور تری دیدہ وری کا


جیسے کہ مرے حال پہ احسان کیا ہے
انداز تو دیکھے کوئی بیداد گری کا


اے شوقؔ غضب ناک ہیں برہم ہیں بہت وہ
افسانہ سنا ہوگا مری بے جگری کا