Shariq Adeel

شارق عدیل

شارق عدیل کی نظم

    بے نام سلسلے

    ابھی میں برف سے لپٹے ہوئے جزیرے پر خود اپنے آپ سے ملنے کی آرزو لے کر لگا ہوا ہوں سویرے کو شام کرنے میں سمندروں میں ابھرتے بھنور بلاتے ہیں افق سے آتی صدائیں بھی کھینچتی ہیں مگر میں اپنی سوچ سے باہر نکل نہیں سکتا عجیب خوابوں کا بے نام سلسلہ ہے یہ کہ زندگی سے کوئی رابطہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے پاگل بنا دینا

    میں اپنی عمر کے سب آخری لمحے حصار فکر سے باہر نکل کر جینا چاہوں تو مرے خالق مرے احساس پر بجلی گرا دینا مجھے پاگل بنا دینا

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی جنگ ہے

    یہ کیسی جنگ ہے جو اپنی منفعت کے لئے غریب ملکوں کی آزادیوں کو چھینتی ہے یہ کیسی جنگ ہے جس میں مقابلے کے بغیر نشانہ سادھ کے گولی چلائی جاتی ہے یہ کیسی جنگ ہے جس میں اسیر لوگوں پر اذیتوں کے لئے کتے چھوڑے جاتے ہیں یہ کیسی جنگ ہے جس میں بموں کی یورش سے سماعتیں بھی خدا کی پناہ چاہتی ...

    مزید پڑھیے

    جسم کا ادھوراپن

    چاندنی کے موسم میں زندگی کے رستے میں پیار کے درختوں کے دل فریب سے سائے رینگتے نظر آئے کشمکش کے عالم میں خود بخود جھکیں پلکیں سائے بن گئے زنجیر دھڑکنیں پکار اٹھیں جسم کا ادھوراپن موت کی علامت ہے

    مزید پڑھیے

    ایڈز

    ہوس کا کھیل بھی کتنا مسرت خیز ہوتا ہے کہ اس کے کھیلنے والے یہ اکثر بھول جاتے ہیں بدن میں جب بدن کی لذتیں غرقاب ہوتی ہیں تو ان کے ساتھ اک ایسی تباہی جسم میں تحلیل ہو جاتی ہے جس کا عمر بھر کوئی ازالہ ہو نہیں سکتا

    مزید پڑھیے

    تخاطب

    کل رات ہوا یوں بھی اک چاند بدن لڑکی تخئیل میں جب اتری دنیا کے مسائل نے ہر دل کی مسرت کو مصلوب بنا ڈالا اور اس سے تخاطب پر محسوس ہوا مجھ کو جیسے کوئی صدیوں کی بچھڑی ہوئی دو روحیں آپس میں مخاطب ہوں بے روح کی قالب ہوں

    مزید پڑھیے

    تلخ تجربہ

    بچپن بیتا کھوئی جوانی آیا بزرگی کا موسم جس کی ہر اک ساعت نے آنکھوں کو بے نور کیا آس کو چکنا چور کیا تب جا کر یہ راز کھلا رات کے تٹ پر آ کر سورج ظلمت کا ہو جاتا ہے اور تعطل جسموں میں بو جاتا ہے

    مزید پڑھیے