Shariq Adeel

شارق عدیل

شارق عدیل کی غزل

    میزوں پہ سجا کے ایاغ دھرو

    میزوں پہ سجا کے ایاغ دھرو اب دامن دامن داغ دھرو ہم سایوں کے گھر ہیں چھپر کے لا کر نہ ہوا میں چراغ دھرو آکاش کو اک دن چھو لے گا اس سر میں میرا دماغ دھرو بیگانوں کی ہے یہ بستی منزل کے یہاں نہ سراغ دھرو اچھا نہیں دل کا کورا پن اس بنجر میں ایک باغ دھرو

    مزید پڑھیے

    اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر

    اتر رہا تھا سمندر سراب کے اندر بچھڑ کے خود سے ملا جب میں خواب کے اندر رگیں کھنچیں تو بدن خواب کی طرح ٹوٹا خلا کا زعم بھرا تھا حباب کے اندر میں ماہ و سال کا کب تک حساب لکھتا رہوں اسیر پوری صدی ہے عذاب کے اندر نظر کو فیض ملا تو لبوں پہ مہر لگی فرات یوں بھی ملی ہے سراب کے اندر عجب ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کی راہ نمائی پہ شک نہیں رکھتے

    ہوا کی راہ نمائی پہ شک نہیں رکھتے ہم اپنے پاؤں کے نیچے سڑک نہیں رکھتے ہماری آنکھوں میں اک ایسا خواب سمٹا ہے پئے سرور پلک پر پلک نہیں رکھتے ہوا دہاڑ کے ٹکرائے بھی تو کیا حاصل پہاڑ اپنے بدن میں لچک نہیں رکھتے تم اس کو کند سمجھ کر نہ دھوکا کھا جانا ہم اپنی تیغ انا پر چمک نہیں ...

    مزید پڑھیے

    شہر میں اک قتل کی افواہ روشن کیا ہوئی (ردیف .. ر)

    شہر میں اک قتل کی افواہ روشن کیا ہوئی اک طرف تکبیر تھی اور اک طرف جے کی پکار خوف و دہشت کے اثر سے چند بپھرے نوجواں زندگی کو کر رہے تھے ہر طرف کھل کر شکار خون سے لتھڑی ہوئی لاشیں اٹھائے گود میں آسماں کی سمت مائیں دیکھتی تھیں بار بار جبر و استحصال کے اس آتشیں سیلاب میں بہہ گئے ...

    مزید پڑھیے