Sharib Mauranwi

شارب مورانوی

شارب مورانوی کی غزل

    اپنی آنکھوں پر وہ نیندوں کی ردا اوڑھے ہوئے

    اپنی آنکھوں پر وہ نیندوں کی ردا اوڑھے ہوئے سو رہا ہے خواب کا اک سلسلہ اوڑھے ہوئے سردیوں کی رات میں وہ بے مکاں مفلس بشر کس طرح رہتا ہے اکلوتی ردا اوڑھے ہوئے اک عجب انداز سے آئی لحد پر اک دلہن چوڑیاں توڑے ہوئے دست حنا اوڑھے ہوئے خیر مقدم کے لئے بڑھنے لگیں میری طرف منزلیں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے

    ہمارے سر ہر اک الزام دھر بھی سکتا ہے وہ مہرباں ہے یہ احسان کر بھی سکتا ہے چمن تو اپنی بہاروں پہ اتنا ناز نہ کر شجر سے حسن کا زیور اتر بھی سکتا ہے وہ جس نے زیست گزاری ہے قید ظلمت میں وہ اک کرن سے اجالے کی ڈر بھی سکتا ہے کہاں تک آپ لگائیں گے اس پہ ضبط کے باندھ کبھی یہ آنکھوں کا دریا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے جسم کے اندر بھی کوئی رہتا ہے

    ہمارے جسم کے اندر بھی کوئی رہتا ہے مگر یہ کیسے کہیں ہم کہ وہ فرشتہ ہے عجیب شخص ہے وہ پیاس کے جزیروں کا پہن کے دھوپ سدا مقتلوں میں رہتا ہے نظر ہے دن کے چمکتے لباس پر سب کی قبائے شام کے پیوند کون گنتا ہے ہماری عریاں ہتھیلی پہ اب بھی شام و سحر یہ کون ہے جو گہر آنسوؤں کے رکھتا ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے دوش پہ بادل کی مشک خالی ہے

    ہوا کے دوش پہ بادل کی مشک خالی ہے جو سب کو بانٹتا پھرتا تھا خود سوالی ہے کسی کو مار کے خوش ہو رہے ہیں دہشت گرد کہیں پہ شام غریباں کہیں دوالی ہے تمہارے سامنے کیسے زباں کو جنبش دیں تمہارے شہر میں سچ بولنا بھی گالی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2