پہنچ گیا تھا وہ کچھ اتنا روشنی کے قریب
پہنچ گیا تھا وہ کچھ اتنا روشنی کے قریب بجھا چراغ تو پلٹا نہ تیرگی کے قریب سلگتی ریت پہ بھی اس کا حوصلہ دیکھو ہوئی نہ پیاس کبھی خیمہ زن نمی کے قریب بدن کے دشت میں جب دفن ہو گیا احساس وفا پھٹکتی بھلا کیسے آدمی کے قریب ہماری پیاس کے سورج نے ڈال کر کرنیں کیا ہے گہرے سمندر کو تشنگی ...