تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا
تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا بستۂ وہم و گماں بھاگتا خوابوں میں رہا دل کی آوارہ مزاجی کا گلا کیا کیجے خانہ برباد رہا خانہ خرابوں میں رہا ایک وہ حرف جنوں نقش گر لوح و قلم ایک وہ باب خرد بند کتابوں میں رہا بے حسی وہ ہے کہ اس دور میں جینے کا مزا نہ گناہوں میں رہا اور نہ ...