Sharaf Mujaddidi

شرف مجددی

شرف مجددی کی غزل

    دیکھ لو اک نظر میں کچھ بھی نہیں

    دیکھ لو اک نظر میں کچھ بھی نہیں سچ کہا ہے بشر میں کچھ بھی نہیں شیخ کچھ اپنے آپ کو سمجھیں میکشوں کی نظر میں کچھ بھی نہیں کچھ نہ ہونے پہ ہو تمہیں سب کچھ تم نہیں ہو تو گھر میں کچھ بھی نہیں کیا سمجھتا ہے آپ کو اے دل تو کسی کی نظر میں کچھ بھی نہیں اے شرفؔ سچ ہے مصرعۂ مصباحؔ ہم تو ...

    مزید پڑھیے

    اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر

    اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر آیا نظر انداز خدائی ترے در پر تھی جس کی تمنا دل مشتاق کو ہر دم وہ چیز اگر پائی تو پائی ترے در پر عشاق کے آگے نہ لڑا غیروں سے آنکھیں ڈر ہے کہ نہ ہو جائے لڑائی ترے در پر دیکھی جو یہاں آ کے جھڑی ابر کرم کی سب دل کی لگی ہم نے بجھائی ترے در پر اس نفس ہی ...

    مزید پڑھیے

    کیوں دیکھتے ہی نقش بہ دیوار بن گئے

    کیوں دیکھتے ہی نقش بہ دیوار بن گئے تم آئنے میں کس کے خریدار بن گئے بجلی چھلاوا فتنہ قیامت غضب بلا میں کیا کہوں وہ کیا دم رفتار بن گئے بازار دہر کا تو یہی کاروبار ہے دو چار اگر بگڑ گئے دو چار بن گئے اک سیر تھی مزے کی یہ آرائشوں کے وقت سو بار وہ بگڑ گئے سو بار بن گئے ہاں ہاں انہیں ...

    مزید پڑھیے

    روک دے موت کو بھی آنے سے

    روک دے موت کو بھی آنے سے کون اٹھے تیرے آستانے سے بجلیاں گرتی ہیں گریں ہم پر ان کو مطلب ہے مسکرانے سے ہو مبارک شباب کی دولت کچھ تو دلوا لئے خزانے سے دخت رز اور تو کہاں ملتی کھینچ لائے شراب خانے سے جان پر بن گئی شرفؔ آخر کیا ملا ہائے دل لگانے سے

    مزید پڑھیے

    تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو

    تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو تم سے امید یہ نہ تھی ہم کو روتے دیکھا مجھے تو فرمایا آ نہ جائے کہیں ہنسی ہم کو جس نظر سے کہ چاہتے تھے ہم تم نے دیکھا نہیں کبھی ہم کو ہائے کہنا کسی کا جاتے ہوئے کیجئے رخصت ہنسی خوشی ہم کو او جوانوں کی جان ہم سے حجاب یاد ہے تیری کم سنی ہم کو ہائے کیا ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتائیں تمہیں کہاں دل ہے

    کیا بتائیں تمہیں کہاں دل ہے رونگٹا رونگٹا یہاں دل ہے لے چکے دل تو ہنس کے فرمایا کہئے اب آج کل کہاں دل ہے ایک غنچہ ہے دیکھنے میں مگر غور کیجئے تو گلستاں دل ہے ہے وہ ناوک فگن شرف جس کے ناوک آہ کی کماں دل ہے

    مزید پڑھیے

    ظرف تو دیکھیے میرے دل شیدائی کا

    ظرف تو دیکھیے میرے دل شیدائی کا جام مے بن گیا اک مست خود آرائی کا جی میں آتا ہے کہ پھولوں کی اڑا دوں خوشبو رنگ اڑا لائے ہیں ظالم تری رعنائی کا میں ابھی ان کو شناسائے محبت کر دوں کاش موقع تو ملے ان سے شناسائی کا بھول جاؤ گے یہاں آ کے تم اپنا عالم تم نے دیکھا نہیں گوشہ مری تنہائی ...

    مزید پڑھیے

    پڑیں یہ کس کے جلوے پر نگاہیں

    پڑیں یہ کس کے جلوے پر نگاہیں نگاہیں بن گئیں خود جلوہ گاہیں کہے مجھ سے نہ کوئی ضبط غم کو ابھی منہ سے نکل جائیں گی آہیں سلوک اپنا ہے ان کے نقش پا پر یہی ہیں منزل عرفاں کی راہیں انہیں دیکھیں وہ دیکھیں یا نہ دیکھیں انہیں چاہیں وہ چاہیں یا نہ چاہیں چلائے تھے جنہوں نے تیر دل پر ہم ...

    مزید پڑھیے

    دل کو یوں لے جانے والا کون تھا

    دل کو یوں لے جانے والا کون تھا تھے تمہیں اور آنے والا کون تھا حضرت ناصح بھی مے پینے لگے اب مجھے سمجھانے والا کون تھا ساتھ اپنے دل بھی میرا لے گیا دیکھنا یہ جانے والا کون تھا جس کو چاہا تو نے اس کو مل گیا ورنہ تجھ کو پانے والا کون تھا بولے قاصد سے شرفؔ کے نام پر وہ ہمیں بلوانے ...

    مزید پڑھیے

    ہے جو رنگ اس کی جلوہ گاہوں میں

    ہے جو رنگ اس کی جلوہ گاہوں میں دیکھتا ہوں وہی نگاہوں میں سیر کو آ گیا وہ جان جہاں پڑ گئی جان سیر گاہوں میں اب تو مے خانوں سے بھی کچھ بڑھ کر جام چلتے ہیں خانقاہوں میں میرا دعویٰ ہے عشق میں سچا دیدۂ تر ہیں دو گواہوں میں بد گمانی نہ کر شرفؔ پہ کہ وہ دل سے ہے تیرے خیر خواہوں میں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2