شکیل جاذب کی نظم

    ہر نقش ادھورا ہے

    ڈھلتے ہوئے سورج کی اب آخری ہچکی ہے پت جھڑ کی اداسی میں بے برگ درختوں کی ہر اجڑی ہوئی ٹہنی سورج کے جنازے کو کاندھوں پہ اٹھائے ہے اس وقت مرا دل بھی بالکل ہے فلک جیسا ٹھہرے ہوئے اک پل میں ڈھلتا ہوا سورج ہے اس وقت محبت کا ہر نقش ادھورا ہے

    مزید پڑھیے

    شام مری کمزوری ہے

    مت پوچھ یہ مجھ سے دوست مرے کیوں شام ڈھلے ان آنکھوں میں بے نام سی ایک اداسی کی گھنگھور گھٹائیں رہتی ہیں کیوں بے خود ہو کر اس لمحے ڈھلتا ہوا سورج تکتا ہوں آنکھوں میں کسی کا عکس لیے کیوں بدن کتابیں تکتا ہوں مت پوچھ یہ وقت ہی ایسا ہے مجھے دل پر زور نہیں رہتا میں لاکھ چھپاتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی

    یاد کی کرنیں پریاں بن کر اپنی باہوں میں لپٹا کر تیرا چاند سا سندر مکھڑا سوچوں کے بے نور کھنڈر میں در آتی ہیں اور میں سوچ کے تپتے تھل میں تیرے ساتھ گزاری شامیں ایک اک کر کے گنتا ہوں جب میں تنہا ہوتا ہوں

    مزید پڑھیے