شکیل جاذب کی غزل

    جز نہال آرزو سینے میں کیا رکھتا ہوں میں

    جز نہال آرزو سینے میں کیا رکھتا ہوں میں کوئی بھی موسم ہو یہ پودا ہرا رکھتا ہوں میں ورنہ کیا بندھن ہے ہم میں کون سی زنجیر ہے بس یونہی تجھ پر مری جاں مان سا رکھتا ہوں میں کار دنیا کو بھی کار عشق میں شامل سمجھ اس لیے اے زندگی تیری پتہ رکھتا ہوں میں میں کسی مشکل میں تجھ کو دیکھ سکتا ...

    مزید پڑھیے

    گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے

    گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے جانے کس وحشت میں بستی کو بگولہ جائے ہے میں نہ کہتا تھا کہ لازم ہے نگہ بھر فاصلہ جب بہت نزدیک ہو تو عکس دھندلا جائے ہے کیا کروں اے تشنگی تیرا مداوا بس وہ لب جن لبوں کو چھو کے پانی آگ بنتا جائے ہے خوف کا مفہوم پہلی بار سمجھا عشق میں بات ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    گردش میں زہر بھی ہے مسلسل لہو کے ساتھ

    گردش میں زہر بھی ہے مسلسل لہو کے ساتھ مرتا بھی جا رہا ہوں میں اپنی نمو کے ساتھ جن موسموں میں تیری رفاقت تھی ناگزیر تو نے رتیں بنائی ہیں وہ بھی عدو کے ساتھ مجھ کو عطا ہوا ہے یہ کیسا لباس زیست بڑھتے ہیں جس کے چاک برابر رفو کے ساتھ مجھ کو وہی ملا مجھے جس کی طلب نہ تھی مشروط کچھ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو ترے خیال سے وحشت کبھی نہ تھی

    مجھ کو ترے خیال سے وحشت کبھی نہ تھی اس درجہ بے ادب یہ طبیعت کبھی نہ تھی حد ہے اسی کے پاس ہے کردار کی سند جس کی تمام شہر میں عزت کبھی نہ تھی یارو دعا کرو یہ کوئی حادثہ نہ ہو پہلے یوں انتظار میں لذت کبھی نہ تھی یا تو جفائیں آپ کی حد سے گزر گئیں یا پھر ہمیں سزاؤں کی عادت کبھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    تیری نظروں میں تو ابرو میں کماں ڈھونڈتا ہوں

    تیر نظروں میں تو ابرو میں کماں ڈھونڈتا ہوں اس کی آنکھوں میں گئی رت کے نشاں ڈھونڈتا ہوں نشۂ قرب سے بڑھ کر ہے تری کھوج مجھے تو جہاں مل نہ سکے تجھ کو وہاں ڈھونڈتا ہوں تازہ وارد ہوں میاں اور یہ شہر دل ہے کچھ کمانے کو یہاں کار زیاں ڈھونڈتا ہوں شک کی بے سمت مسافت ہی مجھے مار نہ دے جو ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ و دل کے تمام رشتے فضائے عالم سے کٹ گئے ہیں

    نگاہ و دل کے تمام رشتے فضائے عالم سے کٹ گئے ہیں جدائیوں کے عذاب موسم بساط ہستی الٹ گئے ہیں وہ جس کی یادوں سے شاعری کا ہر ایک مصرعہ سجایا ہم نے کتاب جاں کے تمام صفحے اسی کے ہاتھوں سے پھٹ گئے ہیں یہاں پہ کچھ بھی نہیں ہے باقی تو عکس اپنا تلاش مت کر مری نگاہوں کے آئنے اب غبار فرقت سے ...

    مزید پڑھیے

    جاں کے زیاں کو غم کی تلافی سمجھ لیا

    جاں کے زیاں کو غم کی تلافی سمجھ لیا کم حوصلوں نے موت کو شافی سمجھ لیا جو گفتگو میں سب سے ضروری تھا وہ سخن ان کی سماعتوں نے اضافی سمجھ لیا اک شرط جستجو بھی تھی منزل کے واسطے ہم نے بس آرزو کو ہی کافی سمجھ لیا خوددارئ جنوں میں ان آنکھوں نے تیرے بعد اشکوں کو بھی وفا کے منافی سمجھ ...

    مزید پڑھیے

    آسماں تھا تم تھے یا میرا ستارا کون تھا

    آسماں تھا تم تھے یا میرا ستارا کون تھا میری ہر منزل مسافت سے بدلتا کون تھا بس یونہی اک ضد میں ساری زندگی برباد کی جانتا ہوں روگ کیا تھے اور مداوا کون تھا ہر قدم تازہ کمک ملتی رہی اپنے خلاف میرا اپنا ہی عدو میرے علاوہ کون تھا کیا کسی امید پر پھر سے در دل وا کروں تجھ سے بڑھ کر خود ...

    مزید پڑھیے

    حاصل عمر ہے جو ایک کسک باقی ہے

    حاصل عمر ہے جو ایک کسک باقی ہے میری سانسوں میں ابھی تیری مہک باقی ہے مجھ سے کیا چھین سکا تو کہ ابھی تک میرے پاؤں کے نیچے زمیں سر پہ فلک باقی ہے پھر تجھے اور مجھے اور کہیں جانا ہے ہم سفر ساتھ تو چل جتنی سڑک باقی ہے یہ کوئی کم تو نہیں دوست جدا ہو کر بھی اپنے لہجے میں شکایت کی جھلک ...

    مزید پڑھیے

    کٹ نہ پائے یہ فاصلے بھی اگر

    کٹ نہ پائے یہ فاصلے بھی اگر اور اس پر یہ رابطے بھی اگر جو تمہاری طرف نہیں کھلتے بند نکلے وہ راستے بھی اگر خیر ہو تیری بے نیازی کی اب نہیں خود پرست تھے بھی اگر کیا کریں گے سوائے خواہش کے مہلت یک نفس ملے بھی اگر عمر بھر کے زیاں کا مول نہیں چند لمحے چرا لیے بھی اگر خوں بہا کون دے ...

    مزید پڑھیے