Shakeel Jamali

شکیل جمالی

سنجیدہ فکر کے عوامی شاعر

Prominent popular poet having serious content.

شکیل جمالی کی غزل

    تم شجاعت کے کہاں قصے سنانے لگ گئے

    تم شجاعت کے کہاں قصے سنانے لگ گئے جیتنے آئے تھے جو دنیا ٹھکانے لگ گئے اڑ رہی ہے شہر کے سارے گلی کوچوں میں خاک جتنے عاشق تھے وہ سب کھانے کمانے لگ گئے رینگتی کاریں ابلتی بھیڑ بے بس راستے کل مجھے گھر تک پہنچنے میں زمانے لگ گئے اس نے ہم پر اک محبت کی نظر کیا ڈال دی ہاتھ جیسے ہم ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی

    نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی تمہارے ساتھ ہماری بھی رات کالی ہوئی خدا کا شکر ادا کر وہ بے وفا نکلا خوشی منا کہ تری جان کی بحالی ہوئی ذرا سے خواب بنے تھے کہ سانس پھول گئی قدم دکاں پہ رکھا تھا کہ جیب خالی ہوئی وفا کے بارے میں لوگوں کی رائے ٹھیک نہیں برادری سے یہ خاتون ہے ...

    مزید پڑھیے

    پیٹ کی آگ بجھانے کا سبب کر رہے ہیں

    پیٹ کی آگ بجھانے کا سبب کر رہے ہیں اس زمانے کے کئی میر مطب کر رہے ہیں کوئی ہمدرد بھرے شہر میں باقی ہو تو ہو اس کڑے وقت میں گمراہ تو سب کر رہے ہیں کہیں خطرے میں نہ پڑ جائے بزرگی اپنی لوگ اس خوف سے چھوٹوں کا ادب کر رہے ہیں سب لفافے کی حصولی کے لیے ہو رہا ہے ہم جو یہ شغل جو یہ کار ادب ...

    مزید پڑھیے

    دکھوں میں اس کے اضافہ بھی میں ہی کرتا ہوں

    دکھوں میں اس کے اضافہ بھی میں ہی کرتا ہوں اور اس کمی کا ازالہ بھی میں ہی کرتا ہوں ذرا بہت مری جھنجھلاہٹیں بھی جائز ہیں کہ مدح صاحب والا بھی میں ہی کرتا ہوں خوشی کے خواب سجاتا ضرور ہوں لیکن صف ملال کو سیدھا بھی میں ہی کرتا ہوں نہ اپنے فعل کا غم ہے نہ اپنے قول کا دکھ نباہتا ہوں تو ...

    مزید پڑھیے

    مسئلہ ختم ہوا چاہتا ہے

    مسئلہ ختم ہوا چاہتا ہے دل بس اب زخم نیا چاہتا ہے کب تلک لوگ اندھیرے میں رہیں اب یہ ماحول دیا چاہتا ہے مسئلہ میرے تحفظ کا نہیں شہر کا شہر خدا چاہتا ہے میری تنہائیاں لب مانگتی ہیں میرا دروازہ صدا چاہتا ہے گھر کو جاتے ہوئے شرم آتی ہے رات کا ایک بجا چاہتا ہے

    مزید پڑھیے

    اگر ہمارے ہی دل میں ٹھکانا چاہئے تھا

    اگر ہمارے ہی دل میں ٹھکانا چاہئے تھا تو پھر تجھے ذرا پہلے بتانا چاہئے تھا چلو ہمی سہی ساری برائیوں کا سبب مگر تجھے بھی ذرا سا نبھانا چاہئے تھا اگر نصیب میں تاریکیاں ہی لکھی تھیں تو پھر چراغ ہوا میں جلانا چاہئے تھا محبتوں کو چھپاتے ہو بزدلوں کی طرح یہ اشتہار گلی میں لگانا ...

    مزید پڑھیے

    سفر سے لوٹ جانا چاہتا ہے

    سفر سے لوٹ جانا چاہتا ہے پرندہ آشیانہ چاہتا ہے کوئی اسکول کی گھنٹی بجا دے یہ بچہ مسکرانا چاہتا ہے اسے رشتے تھما دیتی ہے دنیا جو دو پیسے کمانا چاہتا ہے یہاں سانسوں کے لالے پڑ رہے ہیں وہ پاگل زہر کھانا چاہتا ہے جسے بھی ڈوبنا ہو ڈوب جائے سمندر سوکھ جانا چاہتا ہے ہمارا حق دبا ...

    مزید پڑھیے

    یہ تری خلق نوازی کا تقاضہ بھی نہیں

    یہ تری خلق نوازی کا تقاضہ بھی نہیں کہیں دریا ہے رواں اور کہیں قطرہ بھی نہیں اپنے آقاؤں کے عیبوں کو محاسن سمجھے اتنی پابند عقیدت تو رعایا بھی نہیں اختیارات سے حق تک ہیں زبانی باتیں دستخط کیا کسی کاغذ پہ انگوٹھا بھی نہیں کوئی امکان نہیں ہے کسی خوش فہمی کا چارہ گر تم ہو تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    کہانی میں چھوٹا سا کردار ہے

    کہانی میں چھوٹا سا کردار ہے ہمارا مگر ایک معیار ہے خدا تجھ کو سننے کی توفیق دے مری خامشی میرا اظہار ہے یہ کیسے علاقے میں ہم آ بسے گھروں سے نکلتے ہی بازار ہے سیاست کے چہرے پہ رونق نہیں یہ عورت ہمیشہ کی بیمار ہے حقیقت کا اک شائبہ تک نہیں تمہاری کہانی مزے دار ہے تعلق کی تجہیز و ...

    مزید پڑھیے

    سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے

    سارے بھولے بسروں کی یاد آتی ہے ایک غزل سب زخم ہرے کر جاتی ہے پا لینے کی خواہش سے محتاط رہو محرومی کی بیماری لگ جاتی ہے غم کے پیچھے مارے مارے پھرنا کیا یہ دولت تو گھر بیٹھے آ جاتی ہے دن کے سب ہنگامے رکھنا ذہنوں میں رات بہت سناٹے لے کر آتی ہے دامن تو بھر جاتے ہیں عیاری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3