Shakeel Jamali

شکیل جمالی

سنجیدہ فکر کے عوامی شاعر

Prominent popular poet having serious content.

شکیل جمالی کی غزل

    جھوٹ سچائی کا حصہ ہو گیا

    جھوٹ سچائی کا حصہ ہو گیا اک طرح سے یہ بھی اچھا ہو گیا اس نے اک جادو بھری تقریر کی قوم کا نقصان پورا ہو گیا شہر میں دو چار کمبل بانٹ کر وہ سمجھتا ہے مسیحا ہو گیا یہ تیری آواز نم کیوں ہو گئی غمزدہ میں تھا تجھے کیا ہو گیا بے وفائی آ گئی چوپال تک گاؤں لیکن شہر جیسا ہو گیا سچ بہت ...

    مزید پڑھیے

    سب کے ہوتے ہوئے لگتا ہے کہ گھر خالی ہے

    سب کے ہوتے ہوئے لگتا ہے کہ گھر خالی ہے یہ تکلف ہے کہ جذبات کی پامالی ہے آسمانوں سے اترنے کا ارادا ہو تو سن شاخ پر ایک پرندے کی جگہ خالی ہے جس کی آنکھوں میں شرارت تھی وہ محبوبہ تھی یہ جو مجبور سی عورت ہے یہ گھر والی ہے رات بے لطف ہے پرہیز کے سالن کی طرح دن بھکاری کے کٹورے کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    دلوں کے مابین شک کی دیوار ہو رہی ہے

    دلوں کے مابین شک کی دیوار ہو رہی ہے تو کیا جدائی کی راہ ہموار ہو رہی ہے ذرا سا مجھ کو بھی تجربہ کم ہے راستے کا ذرا سی تیری بھی تیز رفتار ہو رہی ہے ادھر سے بھی جو چاہیے تھا نہیں ملا ہے ادھر ہماری بھی عمر بے کار ہو رہی ہے شدید گرمی میں کیسے نکلے وہ پھول چہرہ سو اپنے رستے میں دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    وہ لوگ آئیں جنہیں حوصلہ زیادہ ہے

    وہ لوگ آئیں جنہیں حوصلہ زیادہ ہے غزل میں خون کا مصرف ذرا زیادہ ہے سب اپنے آپ کو دہرا رہے ہیں رہ رہ کر وہ اس لیے کہ پڑھا کم لکھا زیادہ ہے یہ سچ ہے کوئی فرشتہ نہیں مرے اندر مگر خطا کی بہ نسبت سزا زیادہ ہے مرا خمار اتر جائے تو یہ فیصلہ ہو تری شراب میں کیا کم ہے کیا زیادہ ہے غزل اسی ...

    مزید پڑھیے

    الٹے سیدھے سپنے پالے بیٹھے ہیں

    الٹے سیدھے سپنے پالے بیٹھے ہیں سب پانی میں کانٹا ڈالے بیٹھے ہیں اک بیمار وصیت کرنے والا ہے رشتے ناطے جیبھ نکالے بیٹھے ہیں بستی کا معمول پہ آنا مشکل ہے چوراہے پر وردی والے بیٹھے ہیں دھاگے پر لٹکی ہے عزت لوگوں کی سب اپنی دستار سنبھالے بیٹھے ہیں صاحبزادہ پچھلی رات سے غائب ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ نرم ہو گئے لہجے بدل گئے

    الفاظ نرم ہو گئے لہجے بدل گئے لگتا ہے ظالموں کے ارادے بدل گئے یہ فائدہ ضرور ہوا احتجاج سے جو ڈھو رہے تھے ہم کو وہ کاندھے بدل گئے اب خوشبوؤں کے نام پتے ڈھونڈتے پھرو محفل میں لڑکیوں کے دوپٹے بدل گئے یہ سرکشی کہاں ہے ہمارے خمیر میں لگتا ہے اسپتال میں بچے بدل گئے کچھ لوگ ہیں جو ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں

    لوگ کہتے ہیں کہ اس کھیل میں سر جاتے ہیں عشق میں اتنا خسارہ ہے تو گھر جاتے ہیں موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا مگر آج اپنے بچوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں زندگی ایسے بھی حالات بنا دیتی ہے لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں پاؤں میں اب کوئی زنجیر نہیں ڈالتے ہم دل جدھر ٹھیک ...

    مزید پڑھیے

    رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے

    رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے ہر سازش کے پیچھے اپنے نکلیں گے چاند ستارے گود میں آ کر بیٹھ گئے سوچا یہ تھا پہلی بس سے نکلیں گے سب امیدوں کے پیچھے مایوسی ہے توڑو یہ بادام بھی کڑوے نکلیں گے میں نے رشتے طاق پہ رکھ کر پوچھ لیا اک چھت پر کتنے پرنالے نکلیں گے جانے کب یہ دوڑ تھمے گی ...

    مزید پڑھیے

    اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے

    اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے کچھ دھوپ ہمارے در و دیوار کو لگ جائے پلکوں پہ سجائے رہو امید کے جگنو کیا جانیے کس کی دعا بیمار کو لگ جائے سولی پہ بھی اس بات کی کوشش ہے ہماری ایثار ہمارا ترے معیار کو لگ جائے حق گوئی سے میری ہی پریشان ہے دنیا کیا ہو یہ وبا اور جو دو چار کو لگ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے

    کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے مگر جنون ہمارا نہیں اترتا ہے تباہ کر دیا احباب کو سیاست نے مگر مکان سے جھنڈا نہیں اترتا ہے میں اپنے دل کے اجڑنے کی بات کس سے کہوں کوئی مزاج پہ پورا نہیں اترتا ہے کبھی قمیض کے آدھے بٹن لگاتے تھے اور اب بدن سے لبادہ نہیں اترتا ہے مصالحت کے بہت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3