تم شجاعت کے کہاں قصے سنانے لگ گئے
تم شجاعت کے کہاں قصے سنانے لگ گئے
جیتنے آئے تھے جو دنیا ٹھکانے لگ گئے
اڑ رہی ہے شہر کے سارے گلی کوچوں میں خاک
جتنے عاشق تھے وہ سب کھانے کمانے لگ گئے
رینگتی کاریں ابلتی بھیڑ بے بس راستے
کل مجھے گھر تک پہنچنے میں زمانے لگ گئے
اس نے ہم پر اک محبت کی نظر کیا ڈال دی
ہاتھ جیسے ہم غریبوں کے خزانے لگ گئے
عمر بھر کرتے رہے ہم ایک کوچے کا طواف
ایک سائے کے تعاقب میں زمانے لگ گئے
زندگی دینے لگی پرہیزگاری کا سبق
اب تو ہم جیسے بھی سبزی دال کھانے لگ گئے