کن کی منزل پر رکا ہے قافلہ تقدیر کا
کن کی منزل پر رکا ہے قافلہ تقدیر کا
بس کہ ہے ناقد مصور اپنی ہی تصویر کا
مل نہ پائے گی رہائی وقت کے زندان سے
صورت شام و سحر ہے سلسلہ زنجیر کا
زندگی اپنی بسر ہوتی ہمیشہ خواب میں
خواب میں کھلتا نہیں عقدہ اگر تعبیر کا
وارث کون و مکاں ہیں کہکشاں در کہکشاں
کیوں نہ ہو وابستہ ہم سے سلسلہ تسخیر کا
ذہن سے جس دم ہوئے تھے متصل لوح و قلم
ہو گیا تھا حل وہیں پر مسئلہ تدبیر کا
خامۂ دل سے رقم کرتے رہے عہد وفا
ہے کوئی ضامن ہماری حرمت تحریر کا
زندگی میں ہم بھی رکھتے سر سناں کی نوک پر
جان لیتے گر اشارہ کاتب تقدیر کا
جنبش ابرو سے اس کو کر دیا زندہ شکیلؔ
کاغذی تھا نقش جو اب تک تری تصویر کا