شدت نفرت ہو دل میں اور عمل نفرین تر

شدت نفرت ہو دل میں اور عمل نفرین تر
خود بخود ہوتے ہیں پھر حالات بھی سنگین تر


اتنی اشک آور نگاہوں سے ملی باد صبا
ہو گئی ہے شہر کی ساری فضا نمکین تر


بانٹتے تھے جو کبھی اب خود سوالی بن گئے
دیکھتے ہی دیکھتے سب ہو گئے مسکین تر


جب کبھی اس سر زمیں پہ میں نے حق کی بات کی
اپنے ہی خوں سے ہوا چہرہ مرا رنگین تر


شہر دل کی ہر گلی میں نالہ و فریاد ہے
پہلے دیکھا تھا اسے غمگیں اب غمگیں تر


جانے کیسے ہو گئی کڑوی سماعت کے لئے
بات نکلی تھی اگرچہ زیر لب شیرین تر


شوق نظارہ میں گرچہ دل تھا میرا مبتلا
اس کو پھر تیری تجلی نے کیا شوقین تر


تمکنت اپنے سخن میں تھی بہت گرچہ شکیلؔ
رفتہ رفتہ ہو گیا میرا سخن تمکین تر