Shakeb Ghausi

شکیب غوثی

  • 1948

شکیب غوثی کی غزل

    وہیں ترک سفر کر لینا لنگر چھوڑ دینا

    وہیں ترک سفر کر لینا لنگر چھوڑ دینا اترنے جب لگے طوفاں سمندر چھوڑ دینا وہ میرا ہونا ثابت گوہر نایاب آخر وہ اس کا سنگ بے مایہ سمجھ کر چھوڑ دینا کوئی اوتار تو ہرگز نہیں ہم پھر بھی جل پر ہمارے نام کا تم ایک پتھر چھوڑ دینا مرے پر ناپ آئیں گے مکان و لا مکاں سب کھلے آکاش میں مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    بند کمرے کے باہر بھی ہے زندگی (ردیف .. ے)

    بند کمرے کے باہر بھی ہے زندگی کھڑکیاں کھول کر دیکھنا چاہئے اتنے الزام اور اک اکیلا خدا اپنی مرضی کا سب کو خدا چاہئے سب پہ اظہار حالات اچھا نہیں بند مٹھی کو کم کھولنا چاہئے شہر سے اور کوئی شکایت نہیں سانس لینے کو تھوڑی ہوا چاہئے تھک چلے پنکھ بھی چھا گئی دھند بھی شام ہونے کو ہے ...

    مزید پڑھیے

    نشاں قدم کا سر رہ گزر نہ تھا کوئی

    نشاں قدم کا سر رہ گزر نہ تھا کوئی ادھر کا رخ کیا ہم نے جدھر نہ تھا کوئی سفر سلگتے ہوئے موسموں کا تھا در پیش دہکتی دھوپ تھی سر پر شجر نہ تھا کوئی تھی چیخ سی کوئی گونجی فضا میں آخری بار جمود سنگ میں پھر شور و شر نہ تھا کوئی عجیب سلسلہ اک دستکوں کا تھا شب بھر کواڑ کھول کے دیکھے مگر ...

    مزید پڑھیے