نشاں قدم کا سر رہ گزر نہ تھا کوئی
نشاں قدم کا سر رہ گزر نہ تھا کوئی
ادھر کا رخ کیا ہم نے جدھر نہ تھا کوئی
سفر سلگتے ہوئے موسموں کا تھا در پیش
دہکتی دھوپ تھی سر پر شجر نہ تھا کوئی
تھی چیخ سی کوئی گونجی فضا میں آخری بار
جمود سنگ میں پھر شور و شر نہ تھا کوئی
عجیب سلسلہ اک دستکوں کا تھا شب بھر
کواڑ کھول کے دیکھے مگر نہ تھا کوئی
بدن کی سرحد ویراں پہ ٹھہر جانا پڑا
فسون لمس کے آگے سفر نہ تھا کوئی
فضول پیچھے پڑے شہر کے یہ دانش مند
ہماری خاک میں یوں بھی ہنر نہ تھا کوئی