شہزاد واثق کی غزل

    دل و نظر پہ کوئی اختیار بھی تو نہیں

    دل و نظر پہ کوئی اختیار بھی تو نہیں یہ شتر ایسے مگر بے مہار بھی تو نہیں منا ہی لیتے اسے ہم کڑی ریاضت سے وہ زود رنج کہ پروردگار بھی تو نہیں نہ جانے کیوں ہمیں شرمندگی ہے ماضی پر اگرچہ ایسا کوئی داغ دار بھی تو نہیں یہ کیفیت کہ کوئی سر خوشی نہیں لیکن تری جدائی طبیعت پہ بار بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    ایسے مقام تک بھی ترے نارسا گئے

    ایسے مقام تک بھی ترے نارسا گئے تارے فلک کے ٹوٹ کے قدموں میں آ گئے امید وصل یار لیے کتنے کم نصیب اپنی دکان تیرے جہاں سے بڑھا گئے دیکھا جنہوں نے آنکھ گنوا کر سفر کیا بے لوث جو چلے تھے وہی تجھ کو پا گئے مجھ سے کسی کے سامنے رویا نہیں گیا کتنے ہی غم تھے جو مجھے اندر سے کھا گئے اک ان ...

    مزید پڑھیے

    سرنگوں موسم بہار میں ہے

    سرنگوں موسم بہار میں ہے یہ شجر کس کے انتظار میں ہے تاب نظارہ آنکھ کو بھی نہیں دل بھی کب اپنے اختیار میں ہے زیست ہو بات ہو کہ مجلس ہو لطف گر ہے تو اختصار میں ہے وہ بس اک بار چھو کے گزرے تھے روح تک لمس کے خمار میں ہے کیسا الٹا سفر ہے جیون کا یہ چڑھاؤ کسی اتار میں ہے زیست کرنے میں ...

    مزید پڑھیے

    تنہائیوں کی رات بڑی دور تک گئی

    تنہائیوں کی رات بڑی دور تک گئی چھوٹی سی ایک بات بڑی دور تک گئی ہم تو ہر امتحاں میں ہوئے سرخ رو مگر مجبورئ حیات بڑی دور تک گئی تشنہ لبی تو زیست کا اوج کمال تھی گو کہ لب فرات بڑی دور تک گئی واعظ تمہاری جنت و دوزخ کی خیر ہو رندوں کی کائنات بڑی دور تک گئی بچھڑے ہر ایک موڑ پہ ساتھی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی بس وہ زندگی ہوگی

    زندگی بس وہ زندگی ہوگی جو کسی ہجر میں کٹی ہوگی عمر رفتہ کے غم میں کیوں روئیں تیری دہلیز پر پڑی ہوگی آپ کی دید اور چشم فقیر کس قیامت کی وہ گھڑی ہوگی چاروں جانب سے تیر آ رہے تھے شست تو آپ نے بھی لی ہوگی مجھ پہ آوازے کسنے والوں میں اک نمایاں صدا تری ہوگی رونق راہ میں نہ گم ...

    مزید پڑھیے

    موسم آنے پہ شجر بور سے بھر جاتا ہے

    موسم آنے پہ شجر بور سے بھر جاتا ہے جانے کس اور مگر سارا ثمر جاتا ہے آ کے بیٹھے ہو تم اور وقت سحر آ پہنچا کس قدر جلد بھلا وقت گزر جاتا ہے جب بھی بیٹی کی جدائی کا سماں سوچتا ہوں ایک خنجر مرے سینے میں اتر جاتا ہے تو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کے ذرا اے خوباں کوئی کوچے سے ترے خاک بہ سر جاتا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ازالہ تو کریں آپ بھی تڑپانے کا

    کچھ ازالہ تو کریں آپ بھی تڑپانے کا دل جو توڑا ہے تو پھر سوچیے ہرجانے کا نہ کوئی اشک نہ بازو نہ کوئی زلف نصیب کوئی مصرف نظر آیا نہیں اس شانے کا رات کیا خوب تماشہ تھا گلی میں ان کی شیخ جی پوچھا کیے راستہ مے خانے کا دو گھڑی دل تو بہل جاتا ہے تصویر کے ساتھ مسئلہ حل نہیں ہوتا ترے ...

    مزید پڑھیے