موسم آنے پہ شجر بور سے بھر جاتا ہے
موسم آنے پہ شجر بور سے بھر جاتا ہے
جانے کس اور مگر سارا ثمر جاتا ہے
آ کے بیٹھے ہو تم اور وقت سحر آ پہنچا
کس قدر جلد بھلا وقت گزر جاتا ہے
جب بھی بیٹی کی جدائی کا سماں سوچتا ہوں
ایک خنجر مرے سینے میں اتر جاتا ہے
تو نے دیکھا ہی نہیں مڑ کے ذرا اے خوباں
کوئی کوچے سے ترے خاک بہ سر جاتا ہے
غم نہ کر تو جو تڑپتا ہوں میں گاہے گاہے
جاتے جاتے ہی محبت کا اثر جاتا ہے
کیسی تاثیر ہے اس حسن فسوں ساز کی بھی
کوئی جیتا ہے کوئی دیکھ کے مر جاتا ہے
اک ضرورت نے جھکایا مجھے کس کس در پر
مرے اندر یہ کوئی سوچ کے مر جاتا ہے
کیسی مشکل میں مجھے ڈال دیا اے دوراں
میں کہ دستار بچاتا ہوں تو سر جاتا ہے