ایسے مقام تک بھی ترے نارسا گئے

ایسے مقام تک بھی ترے نارسا گئے
تارے فلک کے ٹوٹ کے قدموں میں آ گئے


امید وصل یار لیے کتنے کم نصیب
اپنی دکان تیرے جہاں سے بڑھا گئے


دیکھا جنہوں نے آنکھ گنوا کر سفر کیا
بے لوث جو چلے تھے وہی تجھ کو پا گئے


مجھ سے کسی کے سامنے رویا نہیں گیا
کتنے ہی غم تھے جو مجھے اندر سے کھا گئے


اک ان کے در پہ جانے کیوں دستک نہ دی کبھی
حالانکہ ان کے کوچے میں ہم بارہا گئے