کہاں تک وقت کے دریا کو ہم ٹھہرا ہوا دیکھیں
کہاں تک وقت کے دریا کو ہم ٹھہرا ہوا دیکھیں یہ حسرت ہے کہ ان آنکھوں سے کچھ ہوتا ہوا دیکھیں بہت مدت ہوئی یہ آرزو کرتے ہوئے ہم کو کبھی منظر کہیں ہم کوئی ان دیکھا ہوا دیکھیں سکوت شام سے پہلے کی منزل سخت ہوتی ہے کہو لوگوں سے سورج کو نہ یوں ڈھلتا ہوا دیکھیں ہوائیں بادباں کھولیں لہو ...