Shahida Hasan

شاہدہ حسن

شاہدہ حسن کی غزل

    چراغ شام ہی تنہا نہیں ہے

    چراغ شام ہی تنہا نہیں ہے ہوا میں نے بھی گھر دیکھا نہیں ہے وہ بادل ہے مگر اس دشت جاں پر ابھی دل کھول کر برسا نہیں ہے محبت اک حصار بے نشاں ہے لہو میں دائرہ بنتا نہیں ہے بکھرتی جا رہی ہوں اور خوش ہوں سمٹنے میں کوئی سچا نہیں ہے خوشا اے روئے شاخ سبز تجھ پر سراب آئینہ کھلتا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میں

    سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میں کہ ٹوٹی تو بہت بکھری نہیں میں رکھی ہے گفتگو اس سے ہر اک پل سخن جس سے کبھی رکھتی نہیں میں یہ چوٹ اپنے ہی ہاتھوں سے لگی ہے کسی کے وار سے زخمی نہیں میں کروں کیوں یاد تیرے خال و خد اب شکستہ آئنے چنتی نہیں میں عجب تھی رہ گزر بھی ہمرہی کی قدم رکھ کر کبھی ...

    مزید پڑھیے

    سواد شام سے تا صبح بے کنار گئی

    سواد شام سے تا صبح بے کنار گئی ترے لیے تو میں ہر بار ہار ہار گئی کہاں کے خواب کہ آنکھوں سے تیرے لمس کے بعد ہزار رات گئی اور بے شمار گئی میں مثل موسم غم تیرے جسم و جاں میں رہی کہ خود بکھر گئی لیکن تجھے نکھار گئی کمال کم نگہی ہے یہ اعتبار ترا وہی نگاہ بہت تھی جو دل کے پار گئی عجب ...

    مزید پڑھیے

    سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھا

    سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھا کہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سے وہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا رفو میں کرتی رہی پیرہن کو اور ادھر گماں اسے مرے زخموں کے اندمال کا تھا یہ اور بات کہ اب چشم پوش ہو جائے کبھی تو علم اسے بھی ہمارے حال کا ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ چشم ہے اور مہرباں ہے

    ستارہ چشم ہے اور مہرباں ہے وہ میری خاک پر اب آسماں ہے ترے آگے مرا خاموش ہونا یقیں کے ٹوٹ جانے کا سماں ہے حد آئندگاں پر ایک لمحہ مری مجبوریوں کا راز داں ہے ہوا سے رشتۂ جاں کیا نبھاؤں کسی کی یاد ہی جب بد گماں ہے ترا ملنا نہ ملنا ایک ہی تھا یہ تنہائی تو اک جوئے رواں ہے

    مزید پڑھیے

    جب گھر ہی جدا جدا رہے گا

    جب گھر ہی جدا جدا رہے گا پھر ہاتھ میں ہاتھ کیا رہے گا وہ میرے خیال کا شجر ہے آنکھوں میں ہرا بھرا رہے گا مہمان وہ خال و خد رہیں گے جب تک مرا شب کدہ رہے گا رشتہ مرے ساحل نفس سے اس موج سراب کا رہے گا وہ حرف جو اس نے لکھ دیا ہے تا عمر یوں ہی لکھا رہے گا اے معجزۂ ہوا سنا دے وہ مجھ میں ...

    مزید پڑھیے

    احساس تو مجھی پہ کر رہی ہے

    احساس تو مجھی پہ کر رہی ہے چھوکر جو ہوا گزر رہی ہے جس نے مجھے شاخ پر نہ چاہا خوشبو مری اس کے گھر رہی ہے بے سمتیٔ اشک کی ندامت اس بار بھی ہم سفر رہی ہے ٹھہرا ہے وہ جب سے رہ گزر میں مٹی مری رقص کر رہی ہے چپکے سے گھڑی گھڑی مسافرت کی دہلیز پہ پاؤں دھر رہی ہے تارے بھی نظر نہ آئیں گھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2