ستارہ چشم ہے اور مہرباں ہے

ستارہ چشم ہے اور مہرباں ہے
وہ میری خاک پر اب آسماں ہے


ترے آگے مرا خاموش ہونا
یقیں کے ٹوٹ جانے کا سماں ہے


حد آئندگاں پر ایک لمحہ
مری مجبوریوں کا راز داں ہے


ہوا سے رشتۂ جاں کیا نبھاؤں
کسی کی یاد ہی جب بد گماں ہے


ترا ملنا نہ ملنا ایک ہی تھا
یہ تنہائی تو اک جوئے رواں ہے