شاہد ذکی کی غزل

    بس روح سچ ہے باقی کہانی فریب ہے

    بس روح سچ ہے باقی کہانی فریب ہے جو کچھ بھی ہے زمینی زمانی فریب ہے رنگ اپنے اپنے وقت پہ کھلتے ہیں آنکھ پر اول فریب ہے کوئی ثانی فریب ہے سوداگران شعلگیٔ شر کے دوش پر مشکیز گاں سے جھانکتا پانی فریب ہے اس گھومتی زمیں پہ دوبارہ ملیں گے ہم ہجرت فرار نقل مکانی فریب ہے دریا کی اصل ...

    مزید پڑھیے

    بن مانگے مل رہا ہو تو خواہش فضول ہے

    بن مانگے مل رہا ہو تو خواہش فضول ہے سورج سے روشنی کی گزارش فضول ہے کسی نے کہا تھا ٹوٹی ہوئی ناؤ میں چلو دریا کے ساتھ آپ کی رنجش فضول ہے نابود کے سراغ کی صورت نکالئے موجود کی نمود و نمائش فضول ہے میں آپ اپنی موت کی تیاریوں میں ہوں میرے خلاف آپ کی سازش فضول ہے اے آسمان تیری عنایت ...

    مزید پڑھیے

    اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

    اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر کٹ کے کیا گری آدھے سفر کے بیچ

    زنجیر کٹ کے کیا گری آدھے سفر کے بیچ میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا رہ گزر کے بیچ اترا لحد میں خواہشوں کے ساتھ آدمی جیسے مسافروں بھری ناؤ بھنور کے بیچ دشمن سے کیا بچائیں گی یہ جھاڑیاں مجھے بچتے نہیں یہاں تو پیمبر شجر کے بیچ جتنا اڑا میں اتنا الجھتا چلا گیا اک تار کم نما تھا مرے بال و پر ...

    مزید پڑھیے

    رات سی نیند ہے مہتاب اتارا جائے

    رات سی نیند ہے مہتاب اتارا جائے اے خدا مجھ میں زر خواب اتارا جائے کیا ضروری ہے کہ ناؤ کو بچانے کے لیے ہر مسافر تہ گرداب اتارا جائے روز اترتا ہے سمندر میں سلگتا سورج کبھی صحرا میں بھی تالاب اتارا جائے سو چراغوں کے جلانے سے کہیں اچھا ہے اک ستارہ سر محراب اتارا جائے پتھروں میں ...

    مزید پڑھیے

    یوں مجھے تیری صدا اپنی طرف کھینچتی ہے

    یوں مجھے تیری صدا اپنی طرف کھینچتی ہے جیسے خوشبو کو ہوا اپنی طرف کھینچتی ہے یہ مجھے نیند میں چلنے کی جو بیماری ہے مجھ کو اک خواب سرا اپنی طرف کھینچتی ہے مجھے دریا سے نہیں ہے کوئی لینا دینا کیوں مجھے موج بلا اپنی طرف کھینچتی ہے کھینچتی ہے مجھے رہ رہ کے محبت اس کی جیسے فانی کو ...

    مزید پڑھیے

    یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے

    یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2