شاہد ذکی کی غزل

    کیا کہوں کیسے اضطرار میں ہوں

    کیا کہوں کیسے اضطرار میں ہوں میں دھواں ہو کے بھی حصار میں ہوں اب مجھے بولنا نہیں پڑتا اب میں ہر شخص کی پکار میں ہوں جس کے آگے ہے آئینہ دیوار میں بھی کرنوں کی اس قطار میں ہوں آہٹوں کا اثر نہیں مجھ پر جانے میں کس کے انتظار میں ہوں پردہ پوشی تری مجھی سے ہے تیرے آنچل کے تار تار میں ...

    مزید پڑھیے

    جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے

    جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے سفر ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے میں سر بہ سجدہ سکوں میں نہیں سفر میں ہوں جبیں پہ داغ نہیں آبلہ بنا ہوا ہے میں کیا کروں مرا گوشہ نشین ہونا بھی پڑوسیوں کے لیے واقعہ بنا ہوا ہے مگر میں عشق میں پرہیز سے بندھا ہوا ہوں ترا وجود تو خوش ذائقہ بنا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں

    تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں خاک سے آب نہ ہو جاؤں پگھلتا ہوا میں اے خزاں میں تجھے خوش رنگ بنا سکتا تھا تجھ سے دیکھا نہ گیا پھولتا پھلتا ہوا میں مجھ کو مانگی ہوئی عزت نہیں پوری آتی ٹوٹ جاؤں نہ یہ پوشاک بدلتا ہوا میں شعبدہ گر نہیں مہمان صف یاراں ہوں زہر پیتا ہوا اور شہد ...

    مزید پڑھیے

    ضبط غم ہے مری پوشاک مری عزت رکھ

    ضبط غم ہے مری پوشاک مری عزت رکھ آتش دیدۂ نمناک مری عزت رکھ کھل نہ جائے یہ مری عکس فریبی کسی دن آئنہ خانۂ ادراک مری عزت رکھ میری مٹی سے چراغ در و دیوار بنا در بدر کر کے مری خاک مری عزت رکھ پرتو داغ گزشتہ رخ فردا پہ نہ ڈال گردش ساعت سفاک مری عزت رکھ بڑی مشکل سے بنائی ہے یہ عزت میں ...

    مزید پڑھیے

    زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں

    زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں بکھر چلا ہوں خوشی کو سنبھالتا ہوا میں ابھی تو پہلے پروں کا بھی قرض ہے مجھ پر جھجک رہا ہوں نئے پر نکالتا ہوا میں کسی جزیرۂ پر امن کی تلاش میں ہوں خود اپنی راکھ سمندر میں ڈالتا ہوا میں پھلوں کے ساتھ کہیں گھونسلے نہ گر جائیں خیال رکھتا ہوں پتھر ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو اظہار کرنا ہوتا ہے

    یہ جو اظہار کرنا ہوتا ہے کار بے کار کرنا ہوتا ہے قبر وہ ناؤ ہے کہ جس میں ہمیں آسماں پار کرنا ہوتا ہے خال و خد سے گریز کرنا بھی لمس بیدار کرنا ہوتا ہے عشق وہ کار یک بیک ہے جسے مرحلہ وار کرنا ہوتا ہے اپنے اندر خلا پری کے لیے خود کو مسمار کرنا ہوتا ہے ہم پس دار سیکھ آتے ہیں جو سر ...

    مزید پڑھیے

    مرے خدا کسی صورت اسے ملا مجھ سے

    مرے خدا کسی صورت اسے ملا مجھ سے مرے وجود کا حصہ نہ رکھ جدا مجھ سے وہ ناسمجھ مجھے پتھر سمجھ کے چھوڑ گیا وہ چاہتا تو ستارے تراشتا مجھ سے اس ایک خط نے سخنور بنا دیا مجھ کو وہ ایک خط کہ جو لکھا نہیں گیا مجھ سے اسے ہی ساتھ گوارا نہ تھا مرا ورنہ کسے مجال کوئی اس کو چھینتا مجھ سے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑ گیا تھا کوئی خواب دل نشیں مجھ سے

    بچھڑ گیا تھا کوئی خواب دل نشیں مجھ سے بہت دنوں مری آنکھیں جدا رہیں مجھ سے میں سانس تک نہیں لیتا پرائی خوشبو میں جھجھک رہی ہے یوں ہی شاخ یاسمیں مجھ سے مرے گناہ کی مجھ کو سزا نہیں دیتا مرا خدا کہیں ناراض تو نہیں مجھ سے یہ شاہکار کسی ضد کا شاخسانہ ہے الجھ رہا تھا بہت نقش اولیں مجھ ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے حصے کی تنہائی محفل سے نکالوں گا

    میں اپنے حصے کی تنہائی محفل سے نکالوں گا جو لا حاصل ضروری ہے تو حاصل سے نکالوں گا مرے خوں سے زیادہ تو مری مٹی میں شامل ہے تجھے دل سے نکالوں گا تو کس دل سے نکالوں گا مجھے معلوم ہے اک چور دروازہ عقب میں ہے مگر اس بار میں رستہ مقابل سے نکالوں گا شبیہوں کی طرح قبریں مجھے آواز دیتی ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو نہیں کہ پہلے سہارے بنائے تھے

    یوں تو نہیں کہ پہلے سہارے بنائے تھے دریا بنا کے اس نے کنارے بنائے تھے کوزے بنانے والے کو عجلت عجیب تھی پورے نہیں بنائے تھے سارے بنائے تھے اب عشرت و نشاط کا سامان ہوں تو ہوں ہم نے تو دیپ خوف کے مارے بنائے تھے دی ہے اسی نے پیاس بجھانے کو آگ بھی پانی سے جس نے جسم ہمارے بنائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2