یوں مجھے تیری صدا اپنی طرف کھینچتی ہے
یوں مجھے تیری صدا اپنی طرف کھینچتی ہے
جیسے خوشبو کو ہوا اپنی طرف کھینچتی ہے
یہ مجھے نیند میں چلنے کی جو بیماری ہے
مجھ کو اک خواب سرا اپنی طرف کھینچتی ہے
مجھے دریا سے نہیں ہے کوئی لینا دینا
کیوں مجھے موج بلا اپنی طرف کھینچتی ہے
کھینچتی ہے مجھے رہ رہ کے محبت اس کی
جیسے فانی کو فنا اپنی طرف کھینچتی ہے
میں ہوں سورج سا رواں رات کی جانب شاہدؔ
مجھ برہنہ کو قبا اپنی طرف کھینچتی ہے