شاہد ذکی کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    کیا کہوں کیسے اضطرار میں ہوں

    کیا کہوں کیسے اضطرار میں ہوں میں دھواں ہو کے بھی حصار میں ہوں اب مجھے بولنا نہیں پڑتا اب میں ہر شخص کی پکار میں ہوں جس کے آگے ہے آئینہ دیوار میں بھی کرنوں کی اس قطار میں ہوں آہٹوں کا اثر نہیں مجھ پر جانے میں کس کے انتظار میں ہوں پردہ پوشی تری مجھی سے ہے تیرے آنچل کے تار تار میں ...

    مزید پڑھیے

    جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے

    جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے سفر ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے میں سر بہ سجدہ سکوں میں نہیں سفر میں ہوں جبیں پہ داغ نہیں آبلہ بنا ہوا ہے میں کیا کروں مرا گوشہ نشین ہونا بھی پڑوسیوں کے لیے واقعہ بنا ہوا ہے مگر میں عشق میں پرہیز سے بندھا ہوا ہوں ترا وجود تو خوش ذائقہ بنا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں

    تیری مرضی کے خد و خال میں ڈھلتا ہوا میں خاک سے آب نہ ہو جاؤں پگھلتا ہوا میں اے خزاں میں تجھے خوش رنگ بنا سکتا تھا تجھ سے دیکھا نہ گیا پھولتا پھلتا ہوا میں مجھ کو مانگی ہوئی عزت نہیں پوری آتی ٹوٹ جاؤں نہ یہ پوشاک بدلتا ہوا میں شعبدہ گر نہیں مہمان صف یاراں ہوں زہر پیتا ہوا اور شہد ...

    مزید پڑھیے

    ضبط غم ہے مری پوشاک مری عزت رکھ

    ضبط غم ہے مری پوشاک مری عزت رکھ آتش دیدۂ نمناک مری عزت رکھ کھل نہ جائے یہ مری عکس فریبی کسی دن آئنہ خانۂ ادراک مری عزت رکھ میری مٹی سے چراغ در و دیوار بنا در بدر کر کے مری خاک مری عزت رکھ پرتو داغ گزشتہ رخ فردا پہ نہ ڈال گردش ساعت سفاک مری عزت رکھ بڑی مشکل سے بنائی ہے یہ عزت میں ...

    مزید پڑھیے

    زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں

    زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں بکھر چلا ہوں خوشی کو سنبھالتا ہوا میں ابھی تو پہلے پروں کا بھی قرض ہے مجھ پر جھجک رہا ہوں نئے پر نکالتا ہوا میں کسی جزیرۂ پر امن کی تلاش میں ہوں خود اپنی راکھ سمندر میں ڈالتا ہوا میں پھلوں کے ساتھ کہیں گھونسلے نہ گر جائیں خیال رکھتا ہوں پتھر ...

    مزید پڑھیے

تمام